نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ان صاحب نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ بغیر بارات کے شادی کیسی؟ حکیم صاحب نے بتاکید مکرر فرمایا کہ بغیر بارات کے ہی نکاح ہوگا ، میرے دروازہ پر خانۂ خدا (مسجد) موجود ہے ، آپ بچے کو لے کر یہاں آجائیے ، نماز پڑھئے ، نماز کے بعد میں نکاح پڑھادوں گا جیسا وقت ہوگا ، اس کے لحاظ سے کچھ خاطر مدارات کردوں گا ، کھانے کا وقت ہوگا تو ماحضر پیش کردوں گا ، کوئی اور وقت ہوگا تو چائے پلادوں گا ، یہ بات ان صاحب کی کسی طرح سمجھ میں نہیں آرہی تھی ، وہ حکیم صاحب کو بارات پر قائل کرنا چاہ رہے تھے اور حکیم صاحب اپنی رائے پر پختہ تھے ، جو صاحب درمیان میں تھے ، انھوں نے بچے کے باپ کی طرف سے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ حکیم صاحب ! آپ جیسا فرماتے ہیں ویسا ہی ہوگا ، حکیم صاحب نے پھر تاکید کردی کہ میرے پاس بارا ت ٹھہرانے کی جگہ نہیںہے، اسے نہ لائیے گا ، پھر تاریخ مقرر ہوگئی وہ صاحب باہر نکلے تو اپنے ساتھی سے بولے ، ارے ! بارات آئے گی،حکیم صاحب پر اس وقت مولویت سوار ہے،جب بارات آجائے گی تو دروازے کی عزت کا خیال کریں گے ، بھلا کوئی آئی ہوئی بارات کو پلٹاتا ہے ، اس وقت غبارے کی سب ہوا نکل جائے گی ، وہ بیچارے نہیں سمجھ سکے کہ حکیم صاحب کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں ۔ وہ تاریخ آگئی ، حکیم صاحب اپنے مطب میں مریضوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں ، کوئی گیارہ بارہ بجے کا عمل رہاہوگا ، ایک شخص دوڑتا ہوا آیا کہ دروازے پر بارات آئی ہے، نوشہ کے والد آپ کو بلارہے ہیں ، حکیم صاحب نے کہا کہ میرے دروازے پر بارات نہیںآئے گی ، وہ کہیں اور کی بارات ہوگی ، اس شخص نے باصرارتمام کہا کہ نہیں ، وہ آپ ہی کے دروازے پر آئی ہے حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں باہر نکلا تو سو آدمیوں کی بارات تھی ، دولہا سر پر پگڑی باندھے ، ایک بڑے گھوڑے پر سوار ہے ، گھوڑا قدم قدم اچھل رہا ہے ، اور دولہا کے سر پر چھتر چھایہ ہے ، جو برابر گردش میں ہے ، دولہا کے والد بھی ہمراہ ہیں اور وہ درمیانی واسطہ بھی موجود ہیں ، انھوں نے پوچھا کہ حکیم صاحب بارات کہاں ٹھہرے گی ، اس وقت حکیم صاحب کے مکان سے کچھ فاصلہ پر کسی بھنگی کے یہاں شادی کا اہتمام تھا ، وہ لوگ اپنی حیثیت کے لحاظ سے خیمہ وخرگاہ لگائے ہوئے تھے ، باجہ مسلسل بج رہا تھا ، حکیم صاحب نے اسی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ہمارے یہاں ایسی جو بارات آتی ہے ، وہ اس جگہ ٹھہرتی ہے ، ان لوگوں نے سمجھا کہ حکیم صاحب کی رائے تبدیل ہوگئی