نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
سے جو دعوت کھلائی جاتی اس سے اجتناب کرتے ، اور اس سلسلے میں وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ۔ اس سلسلہ میں وہ یہاں تک پختہ تھے کہ بڑی سے بڑی نسبتوں کو ٹھکرا دیتے ، انھیں اپنی اولاد کے دنیوی مستقبل سے زیادہ اخروی مستقبل کی فکر رہا کرتی تھی ۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے محض اﷲ کے واسطے جب اونچی نسبتوں کو ٹھکرایا تو اﷲ تعالیٰ نے اس سے بہتر انتظام فرمادیا ۔ ایک روز بڑے لطف سے انھوں نے ایک صاحبزادی کے نکاح کی داستان سنائی : ’’فرمانے لگے کہ گورکھپور میں ایک بڑے عہدہ دار جو مسلمان تھے ، عرصہ سے تعینات تھے ، صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے ، اور اسی صوم وصلوٰۃ کی پابندی کی و جہ سے حکیم صاحب کے مطب اور علاج کے واسطے سے ان کے روابط حکیم صاحب سے ہوئے ، جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتے گئے ، انھیں معلوم تھا کہ حکیم صاحب کی ایک بچی اب نکاح کی عمر کو پہنچ چکی ہے ، ایک دن وہ بہت خوش خوش آئے اور ضلع کے ایک بڑے عہدہ دار کلکٹر یا نائب کلکٹر کے صاحبزادے کا پیغام لے کر آئے اور کہا کہ لڑکا بڑا تعلیم یافتہ ہے ، اونچی ملازمت پاچکا ہے، اس کے ساتھ لڑکی کارشتہ ہوجائے تو لڑکی کی زندگی ٹھکانے لگ جائے ، حکیم صاحب نے غور سے ان کی بات سنی اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا کہ آپ نے میری لڑکی کی فکر رکھی ، لیکن صاحب بات یہ ہے کہ میں اپنی لڑکی کی شادی اپنی برادری میں کروں گا ، برادری سے باہر نہیں کروں گا ، وہ صاحب چونکے انھوں نے کہا کہ میں تحقیق کر چکا ہوں ، جس برادری کے آپ ہیں اسی برادری کے وہ بھی ہیں ، حکیم صاحب نے کہا جی نہیں ان کی اور میری برادری ایک نہیں ہے ، میں ایک ملا آدمی ہوں ، میںبھی نماز پڑھتا ہوں میرے بچے بھی نماز پڑھتے ہیں ، میرے چہرے پر داڑھی ہے ، میرے گھرانے کا ہر چہرہ باریش ہے ، اور جہاں آپ میری بچی کا نکاح کرنا چاہتے ہیں ، وہ گھرانا دین سے دور ہے ، سنت سے دور ہے ، وہ میری برادری میں نہیں ہے ، اس کو سن کر وہ مایوس ہوئے لیکن انھوں نے حکیم صاحب کو سمجھا یا اور اس نکاح کے فوائد بتائے ، پھر اصرار کیا ، اور اتنا اصرار کیا کہ حکیم صاحب نے بادل ناخواستہ ہاں کہہ دی ، وہ صاحب لڑکے کے باپ کو لے کر آئے تا کہ بات پختہ ہوجائے،گفتگو ہوئی،حکیم صاحب نے کہا کہ رشتہ ہونے کیلئے ایک شرط ہے ، اگر وہ آپ کو منظور ہوتو خیر ورنہ اس بات کو یہیں دفن کرد یجئے ، فرمایا کہ میرے گھر بارات نہیں آئے گی ، میں اس رسم کی شریعت میں گنجائش نہیں پاتا،