نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہے ۔ اب نہ صرف یہ کہ بارات قبول ہے بلکہ اس کے لوازمات باجہ وغیرہ کا بھی انتظام کررکھا ہے ، بارات آگے بڑھ گئی ، اور حکیم صاحب اپنے مطب میں جاکر حسب معمول پھر مریضوں کی مسیحائی میں لگ گئے ، بارات بڑی شان سے بھنگیوں کے شامیانے تک پہونچی ، بھنگیوں نے جب اپنے آقاؤں کو دیکھا تو ایک دم باجا بجانا روک کر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے کہ حضور ادھر کہاں نکل آئے ؟ ان صاحب نے کہا کہ کیا یہ حکیم صاحب کا شامیا نہ نہیں ہے ، بھنگیوں نے کہا نہیں حضور! یہاں ہم غریبوں کی بارات آنے والی ہے ، اب تو یہ لوگ بہت چراغ پا ہوئے اور ادھر ہی سے بارات واپس لے گئے ، حکیم صاحب خبر تک لینے نہیں گئے ، بعد میں وہ ’’واسطہ درمیاں‘‘ بہت خفا ہوئے حکیم صاحب نے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ میں اپنی برادری سے باہر اپنی بچی کا نکاح نہ کروں گا ۔ ادھر تو یہ ہوا،ادھر گھر کے لوگ بھی حکیم صاحب پر ناراض ہوئے کہ اتنا اچھا رشتہ محض بارات کی وجہ سے رد کردیا ، حکیم صاحب کچھ جواب نہ دیتے ، بس اﷲ سے دعا کرتے کہ بارالہا ! میں نے صرف دین کے واسطے یہ رشتہ کاٹا ہے ، آپ کو قدرت ہے آپ اس کا نعم البدل عطا فرمادیجئے ۔ اس کے بعد کی داستان سننے کے لائق ہے ، ایک دو ہفتہ حکیم صاحب نے گھر والوں کی ناراضگی میں گزارا، ایک روز صبح کے وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ، حکیم صاحب نے فون اٹھایا اور پوچھا کون؟ ادھر سے آواز آئی ،وصی اﷲ الہ آباد، حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب ہوں گے ، کیونکہ حضرت کو ٹیلیفون وغیرہ سے کیا مناسبت؟ میں نے پوچھا کون وصی اﷲ؟ ادھر سے آواز آئی آپ نہیں جانتے کہ پوچھ رہے ہیں اتنے میں انھوں نے پہچان لیا ، عرض کیاحضرت؟ فرمایا ہاں جی! حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ اس آواز سے میرے اوپر لرزہ طاری ہوگیا ،میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت کیاحکم ہے؟ فرمایا کہ مولوی عبد المجید (مالک اسرار کریمی پریس الہ آباد ) کے یہاں سے آپ کو فون کررہاہوں ، آپ کی وہ بچی ہے نا جو مجھے ابا کہتی تھی ، اس کانکاح کہیں طے تو نہیں کیا ہے ، میں نے کہا نہیں حضرت! حضرت نے فرمایا میں نے اس کا ایک مناسب رشتہ دیکھا ہے آپ آجائیے ، اگر پسند ہوجائے تو عقد ہوجائے ۔