نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
سب لوگ حکیم صاحب کے اعزاز میں کھڑے ہوگئے، حکیم صاحب مولانا کو پہچانتے نہ تھے، شاندار لوگوں سے مصافحہ کرتے رہے، مگر حضرت مولانا کی جانب التفات نہیں کیا، خان صاحب نے جب تعارف کرایا تب مولانا کی جانب متوجہ ہوئے، اورمولانا کے قریب بیٹھ کر نہایت طلاقت لسانی اورخوش بیانی کے ساتھ گفتگو شروع کردی،ساری مجلس ہمہ تن گوش بن گئی، عشاء کی نماز تک مسلسل ان کی گفتگو جاری رہی، کبھی لکھنؤ کے منظروں کی کیفیت کا نقشہ کھینچتے، کبھی اپنے استاذ مرزا حسن علی محدث کے حالات بیان کرتے، اسی گفتگو میں عشاء کا وقت ہوگیا،اس پوری مجلس میں مولانا نے بجز کبھی کبھی ’’جی ہاں‘‘ اور’’بجا ہے‘‘ کے اورکچھ نہیں فرمایا، صبح پھر مولانا کی خدمت میں یہ لوگ حاضر ہوئے، اس وقت بھی مجلس پر حکیم صاحب کی خوش بیانی چھائی رہی، تیسرے پہر حکیم صاحب نے دارالعلوم کی سیر کی، اورتھوڑی تھوڑی دیر اسباق میں بیٹھے، البتہ مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی صدر مدرس کے درس میں زیادہ دیر تک بیٹھے رہے، خان صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ حکیم صاحب پر اب تک مولانا کے حالات منکشف نہیں ہوئے تو مجھے اس کا بہت صدمہ ہوا، میں نے کوشش کی کہ کوئی علمی گفتگو ہو، اورمولانا کچھ کہیں، میں نے مولوی محمود حسن صاحب سے کہا کہ تم کوئی علمی بات دریافت کرو، اورمولوی عبدالکریم سے بھی، مگر ہر ایک نے یہی کہا کہ مولانا کی طبیعت اچھی نہیں ہے،اگرحکیم صاحب معتقد ہوجائیں تو کیا؟اورغیر معتقد ہوجائیں تو کیا؟ہم تو مولانا کو تکلیف نہ دیں گے، تمہارا جی چاہے تو خود پوچھ لو، میں نے بہت اصرار کیا، اسی میں تکرار بھی ہوگئی، مگر ان صاحبوں نے نہ مانا، حکیم صاحب نے مدرسین کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے، محمد خان سے کہا کہ مولوی محمد یعقوب صاحب حدیث ایسی پڑھاتے ہیں، جیسے میرے والد پڑھاتے ہیں، مگر مرزا حسن علی محدث جیسی نہیں پڑھاتے، اورحضرت مولانا کی جانب اشارہ کرکے کہنے لگے، یہ صاحب تو’’پیراں نمی پرند مریداں می پرانند‘‘کے مصداق ہیں، خان صاحب فرماتے ہیں کہ جب یہ بات معلوم ہوئی تو مجھے بہت ملال ہوا، اورمیں نے مولوی محمود حسن کو بھی برا بھلا کہا، اورمولوی عبدالکریم سے تو لپا ڈگی ہوگئی، خان صاحب نے پھر زور دیا کہ مولانا سے کوئی علمی بات پوچھو، انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ ہم تو مولانا کو تکلیف نہ دیں گے، خواہ حکیم عبدالسلام معتقد ہوں یا غیر معتقد۔