نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
خدا کی شان دیکھئے اسی روز سہارن پور سے ایک صاحب علم مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے،اورعرض کیا کہ ایک پادری نے قرآن پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن میں توریت وانجیل کے متعلق تحریف کا دعویٰ کیا گیا ہے، اورقرآن میں اس کا بھی اقرار ہے کہ خدا کے کلام کو کوئی بدل نہیں سکتا،یہ قرآن کا صریح تناقض وتعارض ہے، یہ سن کر مولانا کو جوش آیا، اورجواب میں تقریر شروع فرمادی ، اورآٹھ بجے سے کھانے کے وقت تک تقریر فرمائی، آنے والا تو جواب لے کر چلا گیا، ظہر کے بعد حکیم صاحب نے پھر یہی مضمون چھیڑا، اورمولانا نے ظہر سے عصر تک یہی مضمون بیان کیا، پھر مغرب کے بعد سے عشاء تک، اسی مضمون پر بیان چلتا رہا، عشاء کے بعد پھر یہی مسئلہ چھڑگیا، اورحضرت مولانا کی تقریر کا سلسلہ بارہ بجے تک چلتا رہا، حکیم صاحب نہایت ذوق وشوق سے اورانبساط وانہماک کے ساتھ تقریر سنتے اورسر دھنتے رہے، ان زبان سے ’’بجا ہے حضور، بجا ہے حضور‘‘ کے علاوہ اورکچھ نہیں نکلا، مولانا کو کھانسی کا مرض تھا، مگر آج قدرت کی یاوری دیکھئے دوران تقریر نہ تو کھانسی اٹھی، اورنہ تقریر کی برجستگی میں کوئی خلل واقع ہوا، حکیم صاحب تو بیٹھے رہتے، مگر خان صاحب نے باصرار وبتکرار اٹھنے کو کہا، جب حکیم صاحب اٹھے، تو وہاںسے ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہوئے اٹھے، اب تو حکیم صاحب مولانا کے نہایت معتقد ہو گئے، خان صاحب کو ان کی کیفیت کی تبدیلی کا علم اسی وقت ہوچکا تھا، مگر اس وقت نہیں چھیڑا، خان صاحب فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت حکیم عبدالسلام اورہم سب روانہ ہوئے، حکیم صاحب کو پہونچانے کے لئے مولوی محمود حسن ،حافظ احمد،مولوی عبدالکریم اوردوسرے اشخاص اسٹیشن تک آئے، اسٹیشن پہونچ کر میں نے حکیم عبدالسلام کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے، اورکہا کہ پرسوں جو کچھ آپ نے محمد خان سے فرمایا تھا، وہ میں سن چکا ہوں، اب فرمائیے مولانا کو کیسا پایا؟ اس پر حکیم صاحب نے فرمایا کہ جواب سنو! میری آرزو یہ ہے کہ حق تعالیٰ مجھے اتنی قوت دے کہ مرزاحسن علی محدث کو، اپنے باپ کو، مولانا اسماعیل شہید کو، اورفلاں فلاں علماء کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے لاؤں، اوران کو مولانا کی تقریر سنواؤں، اورایک شعر سناؤں۔ ایںاست کہ خوں خوردۂ ودل بردہ بسے را بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را یہی وہ شخص ہے جس نے کتنوں کا دل چھین لیاہے، اگر کسی کو تاب نظر ہوتو بسم اللہ آئے، اوردیکھے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۶۹) ٭٭٭٭٭٭