نمونے کے انسان |
زرگان د |
اسی خیال کی کشمکش میں خان صاحب ایک بار دیوبند ہو بھی آئے، حکیم صاحب کو معلوم ہوا تو بہت ناخوشی کا اظہار کیا، اورتاکید بلیغ کی کہ اب کے بار ضرور ساتھ لے لینا، دوسری مرتبہ خان صاحب کا پھر پرگرام بنا، لیکن اس وقت بھی انہوں نے اطلاع نہ کی، کسی طرح حکیم صاحب کو پتہ لگ گیا، بیگ لے کر خود ہی اسٹیشن پر تشریف لے آئے، اب مجبوری تھی، تین آدمیوں کا قافلہ دیوبند کے لئے روانہ ہوا، خان صاحب، حکیم صاحب اورایک صاحب اورمحمد خان نامی خورجہ کے رہنے والے، دیوبند پہونچے تو آفتاب غروب ہوچکا تھا، مغرب کی نماز پڑھ کر حضرت نانوتوی کی خدمت میں حاضری کے قصد سے چل پڑے، ان دنوں مولانا اپنے شاگرد رشید حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کے مکان پر رونق افروز تھے، جب مولانا کے مکان کے قریب پہونچے، اورفاصلہ تقریباً پچاس قدم کا رہ گیاتو خان صاحب حکیم صاحب کے ساتھ محمد خان کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے، تاکہ پہونچنے سے پیشتر حکیم صاحب کا ضروری تعارف کرادیں، اس وقت مولانا کے بدن پر جو لباس تھا، اس کا حال سننے کے لائق ہے، سرپر میلا اورپھٹا عمامہ، سردی کا زمانہ تھا، اس لئے دھوتر کی نیلی رنگی ہوئی مرزئی پہنے ہوئے تھے، اس میں بٹن کے بجائے بند لگے ہوئے تھے، اس کے نیچے کرتا نہ تھا، اورانگرکھا، ایک رضائی اوڑھے ہوئے تھے، وہ بھی نیلی تھی، اوراس میں مومی گوٹ لگی تھی، جو پھٹی ہوئی بھی تھی، اورکہیں کہیں سے بالکل اڑی ہوئی، خان صاحب نے پہونچتے ہی عرض کیا کہ حکیم عبدالسلام صاحب زیارت کے لئے آرہے ہیں، مولانا نے سمجھا کہ یہ مولانا عبدالسلام صاحب ہسوی ہیں، جو حضرت شاہ احمد سعید صاحب کے خلیفہ اورمولانا عبدالغنی صاحب مجددی (استاذ حضرت نانوتوی) کے شاگرد ہیں، خان صاحب نے بتایا کہ یہ وہ نہیں ہیں، مولانا حسین احمد صاحب ملیح آبادی کے فرزند حکیم عبدالسلام صاحب ہیں، حضرت سمجھ گئے، اتنے میں حکیم صاحب بھی آگئے، جس وقت حکیم صاحب پہونچے ہیں، اس وقت مجلس کا رنگ یہ تھا کہ دروازہ کے سامنے مولانا ذوالفقار علی صاحب (والد محترم حضرت شیخ الہند) بیٹھے ہوئے تھے، ان کے برابر میں ایک دوسرے عالم مظفر نگر کے تھے، مولانا ایک طرف چارپائی سے کمر لگائے تشریف فرما تھے، اورمولانا کے برابر میں دیوبند کے ایک صاحب اوربیٹھے تھے، جن کی داڑھی اورلباس بہت ہی خوش وضع اورشاندار تھا، اس مجلس میں مولانا کے شاگرد مولوی عبدالکریم پنجابی بھی تھے،