نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
گے نہیں،ملک نظام الدین خواجہ ملک آئے گا،اس کو میرا سلام ودعا پہونچانا،میری طرف سے بہت معذرت کرنا اور کہنا کہ میں تم سے راضی ہوں،اور راضی جاررہا ہوں،تم بھی راضی رہنا، فرمایا کہ جب تک ملک نظام الدین ہے تم کو نہیں چھوڑے گا،شیخ خلیل الدین بہت متأثر تھے، آنکھوں میںآنسو تھے،حضرت مخدوم نے جب ان کی دل شکستگی دیکھی تو بڑی شفقت سے فرمایا : خاطر جمع رکھو،اور دل کو مضبوط رکھو،اس کے بعد فرمایا کون ہے؟ہلال نے عرض کیا کہ ملامحمود صوفی ہیں،آپ نے بڑے گہرے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ بیچارہ غریب ہے،مجھے اس کی بڑی فکر ہے، بیچارے کا کوئی نہیں،اس کے بعد ان کے لئے حسن عاقبت کی دعا فرمائی،اس کے بعد قاضی خاں خلیل حاضر خدمت ہوئے،فرمایا:بیچارہ قاضی ہمارا پرانا دوست ہے،ہماری صحبت میں بہت رہا ہے،اللہ تعالی اس کو جزائے خیر دے،اور عاقبت بخیر کرے،اس کے فرزند بھی ہمارے دوست ہیں،سب کی عاقبت بخیر ہو،اور حق تعالی دوزخ سے رہائی دے۔ اس کے بعد خواجہ معز الدین مشرف بخدمت ہوئے،فرمایا عاقبت بخیر ہو،پھر مولانا فضل اللہ نے قدم بوسی کی،فرمایا بھلے بھلے، اللہ عاقبت بخیر کرے،فتوح باورچی روتا ہوا آیا،اور قدموں میں گرگیا،فرمایا: بیچارہ فتوحا،جیسا کچھ تھا میرا ہی تھا،اس کے حق میں بھی دعائے عاقبت فرمائی،اس کے بعد مولانا شہاب الدین صاحب نے شرف قدم بوسی حاصل کی،ہلال نے تعارف کرایا کہ مولانا شہاب الدین حاجی رکن الدین کے بھائی ہیں،فرمایا:انجام بخیر ہو،ایمان کا غم کھائو،اور رحمت حق کے امیدوار ہوکر پڑھو لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً۔ کچھ دیر کے بعد نماز ظہر کے قریب سید ظہیرالدین اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے،آپ نے سید ظہیرالدین کو بغل میں لے لیا،اور بڑے لطف وشفقت کے ساتھ فرمایا:میں جو عاقبت عاقبت کہتا تھا،یہی عاقبت ہے،اس کے بعدتین مرتبہ ان کو بغل میں لیا اور آخری بار یہ آیت پڑھی،لاتقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً،اور حاضرین کو رحمت ومغفرت خداوندی کا امیدوار بنایا،اس کے بعد وہاں سے اٹھے اور حجرے میں تشریف لے گئے،اور سید ظہیر الدین کے ساتھ کچھ دیر بیٹھے،اور ان سے کچھ دیر باتیں فرمائیں، اس کے بعد سلطان شاہ پرگنہ دار راجگیر اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر خدمت ہوا،ایک روغن کاسر ریاح