نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بعد ازاں آں مخدوم حجرہ سے صحن حجرہ میں تشریف لائے،اور تکیہ کا سہارا لیا،تھوڑی دیر کے بعد دست مبارک پھیلائے،جیسے مصافحہ فرمانا چاہتے ہوں،آپ نے قاضی شمس الدین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا،اور دیر تک لئے رہے،پھر ان کا ہاتھ چھوڑ دیا ،خدام کو رخصت کرنے کا آغاز انہیں سے ہوا،پھر قاضی زاہد کا ہاتھ پکڑکر سینہ مبارک پر رکھا اور فرمایا:ہم وہی ہیں ہم وہی ہیں۔پھر فرمایا:ہم وہی دیوانے ہیں،ہم وہی دیوانے ہیں۔پھر تواضع وخاکساری کی کیفیت طاری ہوئی، اور فرمایا:نہیں ،بلکہ ہم ان دیوانوں کی جوتیوں کی خاک ہیں،پھر حاضرین میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ فرمایا اور ہر ایک کے ہاتھ،داڑھی کو بوسہ دیا،اور اللہ تعالی کی رحمت ومغفرت کے امیدوار رہنے کی تاکید فرمائی،اور بلند آواز سے پڑھا’’لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً‘‘۔پھر یہ شعر پڑھا۔ خدایا رحمتت دریائے عام است ازانجا قطرے بر ما تمام است اس کے بعد حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا :کل تم سے سوال کریں گے تو کہنا’’لا تقنطوامن رحمۃاللہ‘‘لائے ہیں،اگر مجھ سے پوچھیں گے تو میں بھی یہی کہوں گا،اس کے بعد کلمۂ شہادت بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا’’اشہد ان الا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ‘‘۔یہ الفاظ بھی ادا کئے۔رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدﷺ نبیا وبالقرآن اماما وبالکعبۃ قبلۃ وبالمومنین اخوانا وبالجنۃ ثوابا وبالنار عذابا۔ میں اللہ کو رب مانتا ہوں ،اسلام کو دین،محمدﷺ کو نبی،قرآن کو اپنا پیشوا،کعبہ کو قبلہ، اہل ایمان کو اپنا بھائی،جنت کو اللہ کا انعام اور دوزخ کو اللہ کا عذاب تسلیم کرتا ہوں،اور اس عقیدے پر مطمئن ہوں۔ اس کے بعد آپ نے مولانا تقی الدین اودھی کی طرف متوجہ ہوکر اپنا ہاتھ پھیلایا اور فرمایا:عاقبت بخیر ہو،اور ان کے حال پر بڑی عنایت ومہربانی فرمائی،پھر زبان مبارک سے فرمایا، آموں!مولانا آموں حجرے کے اندر تھے،وہ سن کر لبیک کہتے ہوئے دوڑتے ہوئے آئے، آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور چہرۂ مبارک پر ملنے لگے،فرمایا:تم نے بڑی خدمت کی،تمہیں نہیں