نمونے کے انسان |
زرگان د |
عظمت وبزرگی اور مذہب اسلام کی حقانیت کی ایک عظیم دلیل ہے،موت برحق مگر انسانی افتاد ومزاج اور لذت وخواہش کے برعکس ایک تلخ حقیقت ہے،یہ تلخ حقیقت جب اللہ کے مخلص بندوں تک پہونچتی ہے تووہی تلخی جو عام انسانوں کے کام ودہن کو ہر ناگوار سے بڑھ کر ناگوار محسوس ہوتی ہے،اللہ والوں کے لئے ایک جام نوشیں ثابت ہوتی ہے،وہ بڑھ کر اس استقبال کرتے ہیں،اور اس کے آثار وعلائم کو محسوس کرکے مسرت وشادمانی سے مست وسرشار ہوجاتے ہیں۔ حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ کی وفات کے حالات اس درجہ ایمان پرور،دل افروزاور نشاط انگیز ہے کہ انہیں پڑھنے سے ایمان میںتازگی ،آخرت کی محبت اور اللہ کی رحمت کی امید کا ایک زندہ سماں بندھ جاتا ہے،یہ حالات ان کے خلیفہ خاص ،ہمہ وقت کے حاضر باش حضرت زین بدر عربی نے ایک رسالہ میں لکھے ہیں،ہم انہیں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کے حوالے سے من وعن نقل کرتے ہیں،شیخ زین بدر عربی فرماتے ہیں: ’’چہار شنبہ کا دن تھا اور ۵؍شوال ۷۸۲ھ کی تاریخ تھی،میں حاضر خدمت ہوا،نماز فجر کے بعد اس نئے حجرے میں جس کو ملک الشرق نظام الدین خواجہ ملک نے تعمیر کیا تھا،سجادہ پر تکیہ سے سہارا لگائے بیٹھے تھے،شیخ خلیل الدین حقیقی بھائی اور خادم خاص اور بعض دوسرے احباب اور خادم جو متواتر کئی راتوں سے آپ کی خدمت کے لئے جاگتے رہے تھے،جن میں قاضی شمس الدین،مولانا شہاب الدین،(جو خواجہ مینا کے بھانجے تھے)مولانا ابراہیم،مولانا آموں قاضی، میاں ہلال وعقیق اور دوسرے عزیز حاضر تھے،آپ نے زبان مبارک سے فرمایا ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم‘‘پھر حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا :سبحان اللہ،وہ ملعون اس وقت بھی مسئلہ توحید میں لغزش دینا چاہتا ہے،خدا کا فضل وکرم ہے ،اس کی طرف کیا توجہ ہوسکتی ہے،پھر آپ نے لاحول ولاقوۃ الا باللہ العظیم پڑھنا شروع کیا،اور حاضرین سے فرمایا :تم بھی پڑھو،اس کے بعد آپ اپنے ادعیہ ووظائف میں مشغول ہوگئے،چاشت کے وقت ان سے فارغ ہوئے،کچھ دیر کے بعد اللہ تعالی کی حمد وثنا میں مشغول رہے،بآواز بلند الحمد للہ الحمد للہ کہنے لگے،فرماتے تھے :خدا نے کرم فرمایا المنۃ للہ المنۃ للہ، کئی بار دل کی خوشی اور اندرونی فرحت کے ساتھ اسی کو بار بار دہراتے رہے۔الحمد للہ الحمدللہ ،المنۃ للہ المنۃ للہ