نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عنایت اللہ کی طرف مخاطب ہوکر خوب ملامت کی کہ تم نے بہت برا کیا اور تم سزا کے قابل ہو،پھر لاہوری کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ بھائی صاحب!تم بہت نیک بخت ہواور بے شر آدمی ہو،اور تم سب صاحبان ہندوستان سے اپنا اپنا گھر بار چھوڑ کر محض جہاد فی سبیل اللہ کے واسطے آئے ہو کہ اللہ تعالی تم سے راضی ہو اور آخرت میں ثواب ملے،اور دنیا کا کارخانہ تو چند روز کے واسطے خواب و خیال کی طرح ہے،سو بات یہ ہے کہ عنایت اللہ تمہارا بھائی ہے،اور اس سے شامت نفس کے سبب یہ قصور ہوگیا،جو اس نے تم کو مارا،اگر اس کا قصور معاف کردواور دونوں مل جائو تو بہت خوب بات ہے،اللہ تعالی کے یہاں اس کا اجر پائو گے،اور جو تم اس کا عوض لوگے تو برابر ہوجائوگے،جو معاف کرنے میں ثواب ہے،وہ نہ ملے گا،معاف کرنا بھی خدا اور رسول کا حکم ہے،اور عوض لینا بھی،مگر معاف کرنے میں ثواب اور عوض لینے میں اپنے نفس کی خوشی ہے۔ یہ بات سن کر لاہوری نے کہا :قاضی صاحب!اگر ہم عنایت اللہ کو معاف کردیں تو ثواب پاویں گے،اور جو اپنا عوض لے لیں تو برابر ہوجاویں گے،بھلا کسی طرح کا گناہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا :کچھ گناہ نہیں ہے،دونوں حکم خدا اور رسول کے ہیں،جو چاہو منظور کرو،لاہوری نے کہا:میں اپنا حق چاہتا ہوں،قاضی صاحب نے کچھ دیر سکوت کرکے فرمایاکہ’’بھائی لاہوری حق تو تمہارا یہی ہے کہ تم بھی عنایت اللہ کے اسی جگہ دو گھونسے مارلو،اور عنایت اللہ کو لاہوری کے سامنے کھڑا کردیا کہ اپنا عوض لے لو،لاہوری نے کہا کہ حق ہمارا یہی ہے کہ ہم بھی اسی جگہ دو گھونسے ماریں،قاضی صاحب نے کہا:ہاں ،بے شک،یہی بات ہے۔ اس وقت جو لوگ موجود تھے سب کی امید منقطع ہوگئی،اور یقین ہوگیا کہ لاہوری بے عوض لئے نہ چھوڑے گا،لاہوری نے کہا:بھائیو!جو سب حاضر ہو گواہ رہو کہ قاضی صاحب نے ہم کو ہمارا عوض دلایا،اور ہم لے سکتے ہیں،مگر ہم نے محض اللہ تعالی کے رضامندی کے لئے چھوڑدیا، اور عنایت اللہ کو اپنی چھاتی سے لگالیا،اور مصافحہ کیا،تمام لوگ جو وہاں تھے،لاہوری کو آفریں کرنے لگے،اور شاباشی دینے لگے کہ تم نے بڑے مردوں اور دینداروں کا کام کیا۔ یہ خبر سید صاحب کو ہوئی تو انہوں نے لاہوری کو بلایااور اپنے پاس بٹھایااور فرمایا کہ’’ تم نے یہ کام بڑے دیندار مردوں کا کیا کہ اپنے بھائی کا قصور معاف کردیا اور عوض نہ لیا،اس کا اجر اللہ