نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
گوندھنے کے واسطے طاش میں نکال رکھا تھا،عنایت اللہ کے مزاج میں ذرا تندی تھی،لاہوری سے کہنے لگے کہ تمہارا طاش کیسا؟طاش سرکاری ہے،ہم اپنا کام کرکے دیں گے۔ لاہوری نے کہا کہ بے شک طاش سرکاری ہے،مگر قاضی مدنی کی تحویل میں ہے،اور انہوں نے ہمارے سپرد کیا ہے اور تم ہماری اجازت کے بغیر لائے ہو،اس پر الٹے گرم ہوتے ہو، ہمارا حرج ہوتا ہے،ہم اپنا طاش لے جائیں گے،عنایت اللہ نے کہا کہ بھلا دیکھیں،تم کیوںکر لے جائوگے؟لاہوری نے طاش کا آٹا عنایت اللہ کے کپڑے پر رکھ دیا،اور طاش لے کر اپنے ڈیرے پر چلے،عنایت اللہ نے اٹھ کر دو گھونسے لاہوری کے پہلو میں مارے اور طاش چھین لیا، لاہوری بے تاب ہوکر گرپڑے اور نالہ وفریاد کرنے لگے،لوگوں نے ان کو اٹھایا اور پانی پلایا۔ یہ قصہ سید صاحب کے خاص برج کے نیچے ہوا،کسی نے آپ کو اطلاع کی کہ لاہوری کو عنایت اللہ نے مارا ہے،یہ بات سن کر آپ برج کی چھت سے سیڑھی پر آئے،اور لاہوری اور عنایت اللہ کو بلایا،حال پوچھا،لاہوری نے پورا ماجرا سنایا،آپ نے عنایت اللہ سے پوچھا کہ یہ قصہ یوںہی پیش آیا ؟یا اس میں کچھ فرق ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ واقعہ یوں ہی ہے،یہ سن کر آپ کمال ناخوش اور خفا ہوئے اور عنایت اللہ سے کہا کہ تم اپنے دل میں یوں جانتے ہوگے کہ ہم سید صاحب کے پرانے رفیق اور ان کی پلنگ کے پاس رہتے ہیں،تم کو یہ خیال نہیں کہ ہم یہاں اللہ کے واسطے آئے ہیں،اور کام ایسے نکمے کرتے ہو،تم سوچتے ہو کہ لاہوری قاضی مدنی کا سائیس اور کم رو وحقیر ہے،یہی جان کر تم نے اس کو مارا،یہ تم نے بڑی زیادتی کی اور حرکت بے جا کی، ہمارے نزدیک تم اور لاہوری بلکہ سب برابر ہیں ،کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے،سب لوگ خدا کے واسطے آئے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے حافظ صابر اور شرف الدین بنگالی سے فرمایا کہ ان دونوں کو قاضی حبان صاحب کے پاس لے جائو،عنایت اللہ کی زیادتی ہے،ان سے کہنا کہ اس معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہ کریں،شرع شریف کے موافق فیصلہ کردیں۔ جب آپ نے سب کے سامنے یوں فرمایا تو پھلت والے لوگ جن کی جماعت میں عنایت اللہ تھے،آپس میں کہنے لگے کہ اب لاہوری کو کسی طرح راضی کرنا چاہئے،اگر وہ راضی ہوکر