نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
فرمایا: گھبرائوں نہیں،میں کچھ صدا سنانے آیا ہوں،تم سب جمع ہوکر اپنی اپنی جگہ آرام سے بیٹھ جائو ، چونکہ ان کی ہدایت کا وقت آگیا تھا،سب ایک جگہ جمع ہوکر بیٹھ گئیں،مولوی صاحب نے حمائل کھول کر ایسی خوش الحانی سے قرآن پڑھاکہ اس کو سن کر لوٹ پوٹ ہوگئیں،پھر آپ نے ان آیتوں کے معانی بیان کرکے ہر ایک دنیاوی چیز کی بے ثباتی کا اس طرح ذکر کیا کہ یہاںنہ حسن وجوانی کو قیام ہے،نہ مال وزندگانی کو،یہاں ہر چیز فانی اور زوال پذیر ہے،یہ بیان ایسی شرح وبسط اور فصاحت وبلاغت سے ہوا کہ ہر ایک نے رونا شروع کردیا،اس کے بعد مولانا نے موت اور جاں کنی کی سختیاں اور اس وقت کی بے کسی اور وحشت اور اس عالم کی مفارقت کا افسوس ایسے پر درد طور پر بیان کیا کہ ساری عورتیں ہوش باختہ ہوگئیں،پھر اس کے بعد قبر کی تنہائی اور منکر نکیر کا سوال اور وہاں کے عذاب کا بیان اس زور سے کیا کہ قیامت کے دن بدکاروںکے گروہ کو حاضر کیا جائے گا، اور جو کوئی اس فعل بدکاری کا سبب اوروسیلہ یا موجد ومعاون ہوا ہے،وہی اس دن اس گروہ کا پیشرو ہوگا، جب بروز قیامت تم فرداً فرداً بجرم بدکاری گرفتار کرکے حاضر کی جائو گی تو ہر زانیہ کے ساتھ سیکڑوں اور ہزاروں زانی اور بدکار بھی بلائے جائیں گے،جن کی زناکاری کا تم باعث اور وسیلہ ہوئیں،اور تمہارے ہی ناز وادا نے انہیں اس آفت میں پھنسایا،تو خیال کرو کہ اس حالت میں جب سیکڑوں اور ہزاروں زانی وبدکار تمہارے پیچھے ہوں گے،اللہ رب العزت کے سامنے تمہارا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بیان بھی ایسا گرم ہوا کہ کسبیوں کی ہچکیاں بندھ گئیں،تب آپ نے توبہ سے ان خستہ حالوں کے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے توبہ کی فضیلت بیان کرنی شروع کی،اور کہا کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں،اس بیان وعدۂ عفو اور شرح غفاریٔ غفور رحیم سے ان بے دلوں کو کچھ ہوش آیا،معاًً اس کے بعد آپ نے نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کی،اور آخر میں فرمایا کہ جس کا دل جس سے چاہے نکاح کرے اور اپنے افعال ماضیہ سے تائب ہوجائے،’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘یعنی آں حضرت ﷺنے فرمایا کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا۔ جب یہ وعظ ہورہا تھا ،اس کی شہرت تمام شہر میں ہوکر ہزاروں خلقت اس کے سننے کو