نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
تھے،آپ نے دیکھا کہ بہت سی جوان اور خوبصورت عورتیں رتھوں اور پہلیوں میں سوار ہوکر بلا پردہ کہیں جارہی ہیں،مولوی صاحب نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون عورتیں ہیں؟ایک شخص نے کہا یہ سب کسبیاں ہیں،فلانی کسی بڑی کسبی کے گھر کچھ تقریب ہے وہاں جارہی ہیں،مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ کیا یہ مسلمان ہیں؟اس شخص نے کہا ،ہاں مسلمان ہیں،تب مولانا نے فرمایا:تب ہماری بہنیں ہیں،کیا خداوند تعالی ہم سے نہیں پوچھے گا کہ اس قدر مسلمان عورتیں بدکاری وناکاری میں گرفتار تھیں اور تم نے انہیں نصیحت نہیں کی،اس واسطے اب تو میں ان کے مکان پر جاکر نصیحت کروںگا،آپ کے رفیقوں نے کہا کہ آپ کے وہاں تشریف لے جانے سے مخالفین بدنام کریں گے کہ کنچڑا اڈے میں آپ بھی جانے لگے،آپ نے فرمایا کہ اسماعیل کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے، جب اللہ ورسول کا حکم سنانے لگا تو ہر ایک سناوے گا،اس واسطے کہ سب کلمہ گو مومنین کا حق برابر ہے،اول آپ نے اپنے دل سے کہا کہ اے!اگر تیرے بدن کی بوٹیاں کاٹ کر چیلوں کو کھلائیں یا تیرے جسم کو ہاتھی کے پائوں سے باندھ کر کھنچوائیں، تو اس وقت بھی اللہ کی بات بولتا رہے گا،دل نے کہا کہ ہاں،جب تک میرے اندر سانس ہے ،خدا کی بات کہنے سے کسی عذاب اور عقوبت سے باز نہ آئوںگا۔ جب شام ہوئی مولانا نے درویشوں سا بھیس بدل کر اس کسبی کے مکان پر پہونچے، جہاں سب کسبیاں جمع ہوکر کچھ گابجا رہی تھیں،آپ نے وہاں جاکر دروازہ کھٹکھٹایا،اور کہا آئو اللہ والیوں!آئو اللہ والیوں!اس وقت ان چھوکریوں نے دروازہ پر آکر پوچھا ،کون ہو؟آپ نے جواب دیا کہ فقیر ہے،کچھ صدا سنائے گا،اور تماشہ دکھائے گا،وہ سمجھیں کہ کوئی فقیر تماشہ گر ہے، دروازہ کھول کر اندر بلالیا،آپ نے اندر جاکربہت نرمی سے پوچھا کہ بڑی صاحبہ کہاں ہیں؟انہوں نے کہا کہ اوپر بالاخانہ میں مع اپنے مہمانوں کے جشن کررہی ہیں،مولانا صاحب اوپر تشریف لے گئے،اور دیکھا کہ بڑی صاحبہ بڑے تزک اور شان سے مع اپنے مہمانوں کے کرسیوں پر بیٹھی ہیں، چاروں طرف شمع دان روشن ہے،چونکہ مولانا صاحب نامی گرامی اور مشہور شخص ایک بڑے گھرانے کے صاحبزادے تھے،باوجود بھیس بدلنے کے بھی وہ آپ کو پہچان گئی،اور اپنی اپنی کرسیوں پر سے اٹھ کر مؤدب کھڑی ہوگئیں،اور پوچھا کہ حضرت آپ نے آنے کی کیوں تکلیف فرمائی؟آپ نے