نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پکڑ گئی،ایک صبح فجر کے وقت یہ افواہ اڑی کہ حضرت کا وصال ہوگیا،خدام پر بجلی سی گرگئی،اور نماز فجر کے بعد فوراًہم سب حضرت کے مکان کی طرف لپکے،حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب بھی ساتھ میں تھے،گھر پہونچ کر معلوم ہوا کہ بحمدللہ خبر غلط تھی،البتہ تکلیف کی شدت برقرار ہے،ہم سب لوگ حضرت کی عیادت کے لئے کمرے میں پہونچے تو دیکھا کہ حضرت نماز کی چوکی پر بیٹھے ہیں،سامنے تکیے پر ایک کتاب رکھی ہے،اور اندھیرے کی وجہ سے حضرت جھک کر مطالعہ کررہے ہیں،خدام کو یہ منظر دیکھ کر حیرت کے ساتھ تشویش بھی ہوئی کہ ایسی علالت میں مطالعہ کے لئے اتنی محنت برداشت کرنا مرض میں مزید اضافے کا موجب ہوگا،چنانچہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی نے ہمت کرکے ناز کے ساتھ عرض کیاکہ: ’’حضرت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اول تو وہ کون سی بحث رہ گئی ہے جو حضرت کے مطالعہ میں نہ آچکی ہو؟اور اگر بالفرض کوئی بحث ایسی ہو تو اس کی فوری ضرورت کیا پیش آگئی کہ اسے چند روز مؤخر نہیں کیاجاسکتا؟اور اگر بالفرض فوری ضرورت کا مسئلہ ہے تو ہم خدام کہاں مرگئے ہیں،آپ کسی کو بھی حکم فرمادیتے ،وہ مسئلہ دیکھ کر عرض کردیتا،لیکن اس اندھیرے میں ایسے وقت آپ جو محنت اٹھارہے ہیں،وہ ہم خدام کے لئے ناقابل برداشت ہے‘‘۔ اس کے جواب میں حضرت شاہ صاحب کچھ دیر تو انتہائی معصومیت اور بے چارگی کے انداز میں مولانا شبیر احمد صاحب کی طرف دیکھتے رہے پھرفرمایا: ’’بھائی ٹھیک کہتے ہو،لیکن یہ کتاب بھی تو ایک روگ ہے اس روگ کا کیا کروں؟‘‘۔ حضرت شاہ صاحب دن رات مطالعہ اور علمی مشاغل میں اس درجہ منہمک رہتے تھے کہ دنیا آپ کو چھور کر نہ گزری تھی،دنیوی بکھیڑوں میں الجھنا حضرت شاہ صاحب کی استطاعت سے باہر تھا،دارالعلوم کے اصحاب انتظام اور شاگردوں کو چونکہ اس بات کا علم تھا ،اس لئے وہ حضرت کے گھریلوں کام دھندوں کو خود ہی نمٹانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے آکر اطلاع دی کہ حضرت آپ کے مکان کی چھت گرپڑی ہے،اطلاع دینے والے نے اس انداز سے خبر دی تھی کہ اس خبر کو سنتے ہی اچھل پڑیں گے،لیکن حضرت اطمینان سے بیٹھے رہے،پھر انتہائی معصومیت کے ساتھ فرمایا