نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حضرت شاہ نعمت اﷲ صاحب نے اسے بھیجا تھا، اس کا قصہ عجیب ہوا، یہ شخص الہ آباد شہر کے مضافات کے ایک گاؤں مریاڈیہہ کا رہنے والا تھا، ایک روز یہ قضائے حاجت کے لئے رات میں میدان میں گیا ہوا تھا، واپس ہورہا تھا کہ تین آدمیوں نے اسے گھیر لیا، ان کے پاس لاٹھیاں تھیں، یہ تنہا تھا، ہاتھ میں صرف لوٹا تھا، اس نے دیکھا کہ بچاؤ کا کوئی سامان نہیں ہے، تو اس نے کھینچ کر وہی لوٹا ایک کے سر پر دے مارا، وہ وہیں بیہوش ہوگیا، اس نے دوڑ کر اس کے ہاتھ سے لاٹھی چھین لی۔ اب وہ دونوں جمن پہلوان پر ٹوٹ پڑے، مگر اس نے اتنا زبردست وار کیا کہ دونوں وہیں مرگئے، جمن وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا، الہ آباد سے بھاگ کر وہ فیض آباد، حضرت شاہ نیاز احمد صاحب علیہ الرحمہ خلیفہ حضرت مولانا فضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی کی خدمت میں پہونچا، شاہ صاحب نے فرمایا کہ تیرا بچنا مشکل ہے، اگر بچنا چاہتا ہے تو حضرت نعمت اﷲ شاہ صاحب کے پاس چلا جا، چنانچہ وہ پتہ لگاتے لگاتے شاہ صاحب کی خدمت میں آیا، شاہ صاحب نے اس کی روداد سن کر فرمایا کہ تم خانقاہ اہرولی چلے جاؤ، اور حضرت مولاناسید عبداللہ صاحب سے کہو، وہ اہرولی پہونچا، حضرت مولانا سے سب حال بیان کیا اور رونے لگا، حضرت مولانا نے فرمایاکہ رونے کی ضرورت نہیں ہے، اسی جگہ پڑے رہو، اور بے فکر رہو، وہ مصیبت کا مارا وہیں پڑگیا، اور مویشیوں کی خدمت کرنے لگا۔ ادھر الہ آباد میں یہ ہوا کہ پولس والے لاش اٹھا کر لے گئے، دو تو ختم ہی ہوچکے تھے، جو بے ہوش تھا، اسے ہسپتال میں داخل کردیا، جب اسے ہوش آیا تو اس نے ساری روداد سنائی، اور پھر جمن کی پولیس کو تلاش ہوئی، گھر والوں کو کچھ خبر نہ تھی، پولیس نے گھر کے چودہ افراد کو گرفتار کرلیا، اورمکانوں میں سرکاری تالا لگا دیا، کچھ دنوں کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہوئے اور جمن پر حلیہ وارنٹ جاری ہوگیا، بعد میں گھر والوں کو جمن کے بارے میں معلوم ہوگیا کہ وہ اہرولی خانقاہ میں ہے، اس کے بعد گھر والے کبھی کبھی خانقاہ میں آنے لگے، مگر جمن پہلوان کو خانقاہ سے باہر جانے کا حکم نہیں ہوا، وہ خانقاہ ہی میں رہتا تھا۔ ایک روز اس علاقہ کے تھانے دار کو چوکیدار کے ذریعے معلوم ہوگیا کہ الہ آباد کا ایک پہلوان جو خون کرکے آیا ہے، خانقاہ میں رہتا ہے، تھانے دار نے آکر اجازت طلب کی، حضرت