نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بابا وہ خلاف سنت نہیں ہوئی، ہاتھ کا نہ اٹھانا بھی حدیث سے ثابت ہے، شاہ صاحب نے تب جھٹک کر فرمایا جب وہ بھی سنت ہے تب اسے چھوڑ نے کی کیا ضرورت ہے، ابھی لوگوں میں اختلاف شروع ہوجائے گا، مولانا دین محمد صاحب سمجھ گئے اور انھوں نے رفع یدین ترک کردیا۔ اسی طرح کا واقعہ حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب شہید کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، یہ واقعہ علماء دیوبند کے مشہور راوی امیر شاہ خاں صاحب نے بیان کیا ہے جسے ارواح ثلثہ میں نقل کیاگیا ہے، وہ یہ کہ ایک بار مولانا محمد اسمٰعیل صاحب نے نمازوں میں رفع یدین شروع کردیا اس کے متعلق حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی سے عرض کیاگیا، انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی، قرآن کریم کے مشہور مترجم و مفسر حضرت شاہ عبدالقادر صاحب سے فرمایا کہ تم مولوی اسمٰعیل سے بات کرو، حضرت شاہ عبدالقادرصاحب نے حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب کے واسطے سے کہلوایا کہ تم رفع یدین چھوڑدو، اس سے خواہ مخواہ فتنہ ہوگا، مولانا اسمٰعیل صاحب نے جواب دیا کہ اگر عوام کے فتنے کا خیال کیاجائے تو اس حدیث کے کیامعنی ہوں گے: من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شھیدٍ(جس نے میری امت کے بگاڑ کے وقت میری سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھاما، اس کے لئے سو شہیدوں کا اجر ہے) کیونکہ جو کوئی سنت متروکہ کو اختیار کرے گا عوام میں ضرور شورش ہوگی، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب سے جب یہ جواب نقل کیاگیا توفرمایا! ہم تو سمجھے تھے کہ اسمٰعیل عالم ہوگیا ہے۔ مگر وہ تو ایک حدیث کا معنی نہ سمجھا، یہ حکم تو اس وقت ہے جب سنت کے مقابل خلاف سنت ہو اور یہاں سنت کا مقابل خلاف سنت نہیں، بلکہ دوسری سنت ہے، کیونکہ جس طرح رفع یدین سنت ہے، یوں ہی ارسال (ترک رفع یدین) بھی سنت ہے، مولانا محمد اسمٰعیل صاحب اس پر خاموش رہے۔ دونوں واقعوں میں، اور دونوں کے جواب میں کس درجہ مطابقت ہے، ایک جواب ایک زبردست عالم کی زبان سے ہے، اس میں عالمانہ تفہیم پائی جاتی ہے، اور ایک جواب ایک ایسے شخص کی زبان سے ہے جو اصطلاحاً عالم نہ تھا، مگر دین کی سمجھ حاصل ہوچکی تھی،بزرگوں کی صحبت کی یہ برکت ہے۔ خانقاہ اہـرولی میں ایک پہلوان: ایک دن خانقاہ میں الہ آباد کا ایک پہلوان جمن نامی آیا، وہ یہاں پناہ لینے آیا تھا،