نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کہ ایک شخص خانقاہ میں آیا، اور ستر روپئے اور کچھ کپڑے وغیرہ پیش کئے، آپ نے مریدوں سے کہا کہ دیکھا ہم نے تجارت کی تو کس قدر نفع ہوا، اس کے بعد حسب عادت مستمرہ چالیس دن کی خرچی منگائی، باقی سب فقراء و طلبہ کو تقسیم کردیا، شام تک نہیں رکھا، سبحان اﷲ۔ کس قدر استغناء دل کے اندر تھا، اور خدا پر توکل اور اس کے وعدہ پر یقین۔ ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ: مولانا ابوالحسن صاحب رسالہ ضیاء الایمان میں لکھتے ہیں کہ: اوائل زمانہ میں جب حضرت قدوۃ العارفین، رہنمائے سالکین مرشد نا حضرت چاند شاہ صاحب قدس سرہٗ ٹانڈہ میں عزلت گزیں ہوئے، تو ایک شیعہ آپ کا معتقد ہوکر آپ کے خدام میں داخل ہوا، اور مذہب باطل سے تائب ہو کر سنت جماعت میں داخل ہوا، اور اپنے گھر کے تمام لوگوں کو سنت جماعت بنالیا، اور حضرت کا معتقد کردیا، اور تعزیہ داری کا سب سامان جلا کر فنا کردیا، ایک بھائی اس کا لکھنؤ رہتا تھا، جب محرم کا زمانہ آیا ، تعزیہ کے خیال سے ٹانڈہ آیا، یہاں آکر دیکھا تو معاملہ دگرگوں ہے، نہ کوئی سامان ہے، نہ کوئی انتظام، اور خیالات میں تغیر ہے ،بہت ناراض ہوا، اس کے بھائی نے قصہ کہہ سنایا کہ ہم لوگ حضرت کے ہاتھ پر تائب ہوگئے ہیں اور سامان تعزیہ سب جلادیا ہے۔ یہ سنتے ہی اس کے بدن میں آگ لگ گئی، اور تلوار میان سے نکال کر حضرت مرشد کی تلاش میں نکلا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت کو کسی نے آکر قصہ سنایا، اور کہا کہ آپ مکان کے اندر چلے جایئے، آپ نے فرمایا کہ چپ رہو، خداکے گھر سے بڑھ کر جائے پناہ کہاں ہے؟ اتنے میں وہ پہونچ گیا، اور کہا فلان شخص تمہیں ہو؟ آپ نے فرمایا مجھی کو کہتے ہیں، پھر کہا آپ ہی تعزیہ کو منع کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں کیا خود خدائے عز وجل منع فرماتے ہیں۔ لاؤ قرآن مجید میں دکھلاؤں، قرآن مجید مسجد میں موجود تھا۔ اس نے چاہا کہ ہاتھ لگاؤں، آپ نے فرمایا خبردار بلا وضو ہاتھ نہ لگانا، وہ تلوار رکھ کر وضو کرنے گیا۔ جب وضو کرکے آیا، اور قرآن شریف لے کر پہونچا، آپ نے سورہ صافات کی آیت کا ٹکڑا نکال کر دکھلایا اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ یعنی تم اس چیز کو