نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
تواضع اورسادگی کا عالم یہ تھا کہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ: حضرت مفتی صاحب کو حق تعالیٰ نے جوکمالات علمی اورعملی ، ظاہری اورباطنی عطا فرمائے تھے، حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک شخص کے لئے ادراک بھی آسان نہ تھا، اورکوئی کیسے سمجھے کہ یہ بڑے عالم یا صاحب کرامت صوفی، اورصاحب نسبت شیخ ہیں، جب کہ غایت تواضع کا یہ عالم ہو کہ بازار کا سودا سلف نہ صرف اپنے گھر کا، بلکہ محلہ کی بیواؤں اورضروت مندوں کا بھی خود لاتے، بوجھ زیادہ ہوتا تو بغل میں گٹھری دبا لیتے، اورپھر ہر ایک کے گھر کا سودا مع حساب اس کو پہونچا دیتے۔ ان کے پوتے مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ احقر نے حضرت والد(مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ) سے بار بار سنا کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جب حضرت مفتی صاحب کسی عورت کا سودا دینے کے لئے جاتے تو وہ دیکھ کر کہتی، مولوی صاحب یہ تو آپ غلط لے آئے ہیں، میں نے یہ چیز اتنی نہیں، اتنی منگائی تھی، چنانچہ یہ فرشتہ صفت بزرگ دوبارہ بازار جاتے، اوراس عورت کی شکایت دور کرکے گھر واپس ہوتے، پھر کہتے ہیں کہ تواضع اورسادگی کی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب قدس سرہ کے جانشیں یعنی حضرت والد صاحب کو بھی خوب عطا فرمائی تھی، آپ بھی اپنے بلند علمی وعملی مقام کے باوصف نہ صرف اپنا بلکہ محلہ کے بے سہارا افراد اورعزیزوں رشتہ داروں کا کام بھی خود کیا کرتے تھے، اورآپ کو کسی کام سے عار نہ تھی، یہاں تک کہ ایک مرتبہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب قدس سرہ نے غایت شفقت سے فرمایا کہ: بھئی مولوی صاحب! اب آپ دارالعلوم کے مفتی ہوگئے ہیں، اس منصب کا بھی کچھ خیال کریں، اب آپ کو پتیلی ہاتھ میں لے کر بازار میں نہیں پھرنا چاہئے۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مدنی قدس سرہ کی اس تنبیہ پر مجھے خیال ہوا کہ میں واقعۃً اس منصب کی حق تلفی تو نہیں کررہا ہوں؟ لیکن میرے اساتذہ میں سے کسی نے حضرت مدنی سے فرمایا کہ پہلے مفتی صاحب یعنی مفتی عزیزالرحمن صاحب کا حال بھی تو یہی تھا، اس پر حضرت مدنی قدس سرہ نے تبسم فرمایا، گویا فرمارہے ہوں کہ سادگی اورتواضع کی یہ ادا محبوب تو بہت ہے،البتہ اب لوگوں کے مزاج چونکہ بگڑ گئے ہیں، اس لئے قدرے احتیاط کی ضرورت ہے۔