نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
لیکن بعض واقعات ان میں بھی ایسے عجیب تر ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص انسانیت کی کن بلندیوں پر جا پہونچا تھا؟حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی مثالیں نبی کریم روحی فداہﷺکی قوت تربیت کے معجزانہ نمونے ہیں،ایک حکایت مشہور صوفی وزاہد شیخ حضرت شفیق بلخی سناتے ہیں ،آج بھی پڑھنے سے طبیعت میں ایک جھر جھری سی پیدا ہوجاتی ہے،آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں،شفیق بلخی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امام ابوحنیفہ کسی مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جارہے تھے،میں بھی ساتھ تھا،اچانک دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی پڑا،اس نے امام صاحب کو دیکھا اورامام صاحب نے بھی اسے دیکھ لیا،جونہی اس کی نظر امام صاحب پر پڑی سرپٹ بھاگ کر اس نے چھپ جانا چاہا،کوشش کی کہ دوسری راہ لگ کر فرار ہوجائے،امام صاحب سے رہا نہ گیا،بے اختیار آپ نے بلند آواز سے اسے پکارا،سنو سنو!جس راہ پر تم آرہے تھے اسی پر چلے آئو،دوسرا راستہ نہ اختیار کرو،اس آدمی نے تو سمجھا کہ امام صاحب نے اسے دیکھا نہیں ہے،لیکن اب اسے احساس ہوا کہ انہوں نے دیکھ لیا ہے،تو مارے شرم کے زمین میں گڑگیا،سر جھکا کر کھڑا ہوگیا،شرم اور رعب کی وجہ سے اس میں سر اٹھانے کی ہمت نہ تھی،امام صاحب شفقت سے پوچھ رہے ہیں۔ ’کیوں میاں !جس راہ پر تم آرہے تھے،اسے چھوڑ کر دوسری راہ کیوں چل پڑے تھے؟ ‘ بولا:حضرت!آپ کے دس ہزار درہم میرے ذمہ باقی ہیں ،ادائیگی کی جو مدت مقرر تھی اسے گزرے ہوئے طویل عرصہ گزرگیا ہے اور میں اب تک اس کے ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا،اسی واسطے مارے شرم کے آپ کے پاس آنے کی ہمت نہ کرسکا۔ اس کی یہ بات سن اسے سمجھانے لگے کہ سبحان اللہ!صرف اتنی بات کا اتنا اثر ہے کہ تم مجھ سے چھپنے لگے؟نہیں ،تم کو چھپنا نہیں چاہئے،پھر اتنے ہی بس نہیں کہا بلکہ معاً یہ بھی فرمایا کہ جائو، میںنے تمہارا سارا قرض معاف کردیا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بغیر کسی دغدغہ کے یک قلم سب کو معاف کردیا لیکن سننے کی بات اس کے بعد کی ہے فرماتے ہیں: واجلعنی فی حل مما دخل فی قلبک منی حیث لقیتنی مجھے دیکھ کر جو شرم اور دہشت کا اثر تم نے اپنے دل میں پایا ہے،اسے خدارا معاف کردو اللہ اکبر!مسلمان کے قلب کی اتنی رعایت،سچ فرمایا حضرت بکیر بن معروف نے، جس