نمونے کے انسان |
زرگان د |
محمد رسول اللہ،اس کے بعد بڑے اہتمام سے اور دل کی بڑی قوت اور بڑے ذوق وشوق سے محمد،محمد،محمد اللہم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد الخ،پھر یہ آیت پڑھی،ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء الخ پھر رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدﷺ نبیا ،اس کے بعد تین مرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد فرمایا،پھر آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے اور بڑے ذوق وشوق کے ساتھ جیسے کوئی دعا اور مناجات کرتا ہے، فرمایا:اللہم اصلح امۃ محمد اللہم ارحم امۃ محمد اللہم اغفر لامۃ محمداللہم تجاوز عن امۃ محمد اللہم اغث امۃ محمد اللہم انصر دین محمد اللہم فرج عن امۃ محمد فرجاً عاجلاً اللہم اخذل من خذل دین محمد ،برحمتک یا ارحم الراحمین۔ ان الفاظ پر آواز بند ہوگئی،اس وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے،لاخوف علیہم و لاہم یحزنون لاالہ الا اللہ،اس کے بعد ایک بار بسم اللہ الرحمان الرحیم کہا اور جاں بحق تسلیم ہوئے،یہ واقعہ شب پنج شنبہ ۶؍ شوال ۷۸۲ھ عشا کی نماز کے وقت کا ہے،اگلے روز پنج شنبہ کے دن نماز چاشت کے وقت تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ شیخ اشرف جہانگیر سمنانی نے پڑھائی،جو انتقال کے بعد پہونچے تھے، لطائف اشرفی میں حضرت مخدوم صاحب کی خود وصیت اور پیش گوئی فرمانے،اور شیخ جہانگیر کے وہاں پہونچنے اور حسب وصیت نماز پرھانے کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخدوم صاحب کی وصیت واطلاع کے مطابق جنازہ تیار کرکے راستہ پر رکھ دیا گیاتھا،اور ان کا انتظار تھا،شیخ اشرف جہانگیر دہلی سے بنگالہ سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ علائو الدین علائوالحق لاہوری پنڈوی کی خدمت میں تشریف لے جارہے تھے،راستہ میں بہار شریف عین اس وقت میں پہونچے جب حضرت کا جنازہ تیار کرکے راستہ پر رکھ دیاگیا تھا،اور امام کا انتظار تھا،آپ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتارا،قبر کچی ہے اور اس پر کوئی گنبد نہیں ہے،سوریوں کے عہد سلطنت میں اس کے گرد وپیش مکانات ،مسجد اور حوض وفوارہ بنا،لیکن بخیال اتباع شریعت جس کا حضرت مخدوم کو بڑا اہتمام تھا قبر اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی۔ (علوم ونکات۔ج۲۔ص۱۲۰) ٭٭٭٭٭٭