نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
طریقۂ دوم پر اقتصار فرمایا،لوگوں نے صاحبزادوں سید خلیل الرحمان اور سید عبداللہ اور دوسرے عزیزوں کے بچوں کو پیش کیا ،حضرت نے فرمایا کہ’’ بیعت کی تین قسمیں ہیں،بیعت توبہ،بیعت ارشاد،اور بیعت تبرک،بچوں کے حق میںبیعت تبرک ہے اور دوسروں کے حق میں بیعت توبہ اور بیعت ارشاد ہے،حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بچہ کو سرور کائناتﷺ کی خدمت میں پیش کیاگیا، آں حضرتﷺ نے اس سے بیعت نہیں لی،دست مبارک اس کے سر پر پھیرا اور دعائے برکت فرمائی،دوسری بار ایک آٹھ سال کے لڑکے کو پیش کیاگیا،آں حضرتﷺ نے اس سے بیعت لی جیسے کہ’’ القول الجمیل‘‘ میں مذکور ہے،اگر کسی کو شک ہو،دیکھ لے‘‘۔ایک مرید نے عرض کیا کہ جناب کے فرمانے میں کسی کو شک ہوسکتا ہے،فرمایا نہیں اگر کسی کو شک ہو،دیکھ لے،اس کے بعد لڑکوں سے بیعت لی۔ عم محترم سید عبدالوہاب مرحوم نے بڑے صاحبزادے سید خلیل الرحمان کو خلافت عطا فرمانے کے لئے عرض کیا،حضرت نے ان کی کم عمری کو دیکھتے ہوئے انکار فرمایا،اور کہا کہ میں نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ پایا ہے،وہ سید خلیل الرحمان ،سید عبداللہ اور سید مقتدی(جو آپ کے بڑے بھتیجے تھے)کو دیا،باقی جو صالح اور لائق ہوگا،اس کو ان امور کی اجازت ہے۔ المختصر ظہر سے دو گھنٹے پہلے نفی واثبات کی ضربیں بلند آواز سے اور پورے اطمینان کے ساتھ پیدا ہوگئیں،ظہر کی اذان کے قریب مولوی احمد حسن کو یاد فرمایا اور حاضر رہنے کی ہدایت کی، ظہر کا وقت ہوجانے کے بعد چار رکعت فرض سورہ کوثر واخلاص سے اللہ یار خان خادم کی گود میں تکیہ کے سہارے پورے اطمینان کے ساتھ ادا فرمائی،سر مبارک کچھ دیر تک اللہ یار خان کی گود میں رہا، باوجود اس کے کہ حاضرین نے دو تین مرتبہ خان موصوف سے کہا کہ نماز پڑھ آئو،دوسرا آدمی بیٹھ جائے گا لیکن حضرت اس بارے میں خاموش رہے،جس وقت مولوی احمد حسن نے نماز کی اجازت چاہی،فرمایا جلد آنا،جب وہ واپس آگئے تو اللہ یار خان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جب آدمی مرجائے تو اس کے دونوں ہاتھ اس کے پہلووں میں سیدھے رکھ دینے چاہئیں،اس کی آنکھ بند کردینی چاہئیں اور اس کے پائوں کو بستر پر سیدھا کردینا چاہئے،اور پائوں کے انگوٹھوں کو باندھ دینا چاہئے،ڈاڑھی کو کپڑے کے ٹکڑے سے باندھ دینا چاہئے،اس تقریر سے عموی مولوی سید