نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
انداز اختیار کیا جاتا ہے جیسے حق وباطل کا معرکہ پیش ہے،یہ اختلافات مکمل طور سے اخلاص اور علمی دیانت داری پر مبنی ہیں،اور ان کا حاصل زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اپنے مسلک کو’’صواب محتمل الخطاء‘‘اور دوسرے مسلک کو’’خطاء محتمل الصواب‘‘قراردیا جائے،لہٰذا ان مسائل پر گفتگو کے دوران فریق ثانی کا احترام کرنا لازمی ہے،اور اس سلسلے میں مناظرانہ انداز سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے،جو حضرات جوش تقریر میں امام بخاری،امام دار قطنی،امام بیہقی وغیرہ کی تردید کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایسے کلمات کہہ دیتے ہیں جو ان حضرات کے شایان شان نہیں ہوتے،حضرت والد صاحب(مفتی محمد شفیع صاحب) ان پر سخت نکیر فرماتے،اور اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کا یہ ارشاد نقل فرمایا کرتے تھے کہ حافظ ابن حجر ہوں یا علامہ عینی،یہ سب حضرات صدیوں پہلے اپنے خیمے گاڑ چکے ہیں،ان کی شان میں کوئی نامناسب بات کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہ کرو۔(بروایت مولانا تقی عثمانی صاحب) ٭٭٭٭٭٭