روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
رائے عالی حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی دامت برکاتہم یادگار حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ، اَمَّا بَعْدُ حضرت عارف رومی قدّس سرہٗ کی مثنوی معنوی اپنے اسرار ومعارف کے لحاظ سے بین العوام والخواص مشہور ومعروف ہے، علماء ومشایخ نے اس کو تلقی بالقبول فرمایا ہے۔ چناں چہ اپنی مجالس ومواعظ میں اس کے اشعارو مضامین بطورِ سند وحجّت پیش فرماتے ہیں بلکہ اس کے درس وتدریس کا سلسلہ بھی رہا ہے جس کی وجہ سے بہتوں کی اصلاح ہوئی، عقائد تک درست ہوئے اور عقائدِ زندقہ سے تائب ہوگئے۔ معلوم نہیں کتنے اہلِ ذوق عشق ومحبتِ الٰہی میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ نسبت مع اللہ کی دولت سے نوازے گئے اور واصل الی اللہ ہوگئے اور کتنے اہلِ علم جائے تقلید سے پایۂتحقیق تک پہنچ گئے۔ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہٗ کو تو گویا مثنوی معنوی سے عشق تھا،امداد المشتاق میں آپ کا یہ ملفوظ مذکور ہے کہ’’فقیر نے عادت کرلی ہے کہ سفرو حضر میں کلام اللہ شریف، دلائل الخیرات ومثنوی معنوی کو ضرور پاس رکھتا ہوں۔‘‘ نیز حضرت مولانا محمدقاسم صاحب نوراللہ مرقدہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ تین کتابیں البیلی ہیں: قرآن شریف، بخاری شریف، مثنوی شریف۔ اسی طرح حضرت مولانا تھانوی قدس سرہٗ کو بھی اس کتاب سے خاص شغف تھا۔ چناں چہ کئی دفتر کی شرح بھی لکھی جو کلیدِ مثنوی کے نام سے مشہور ہے۔ پس اکابر کےاس قدر شغف کا تقاضا تھا کہ ہم منتسبین بھی اس کتاب سے خاص ربط رکھتے اور مولانا رومی کے فیوض سے مستفیض ہوتے مگر فارسی زبان سے ناواقفیت اور سلوک وطریق سے قلّتِ مناسبت کی بنا پر اب گویا اس کتاب سے تعلق ہی ختم ہورہا ہے۔ بنا بریں ضرورت تھی کہ اس کے زیادہ مفید ومؤثر اشعار کا انتخاب کرکے اس