روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے ایک شخص کا گھوڑا شریر اور عیب دار تھا، کسی دلال سے کہا کہ فروخت کر دے۔ اُس نے بازار میں خوب تعریف کی۔ اُس بے وقوف نے اس تعریف کوصحیح سمجھ کر کہا: اب نہ فروخت کروں گا، میرا گھوڑا مجھے دے دو۔ اُس دلال نے کہا: زندگی بھر کا اپنا تجربہ میری جھوٹی تعریف سے جو محض بیچنے کے لیے ہے بھول گئے۔ یہی حال ہمارا ہے کہ ہر وقت اپنے نفس کی شرارت اور خباثت اور گناہوں کے تقاضوں کو جانتے ہوئے جہاں کسی نے ذرا تعریف کردی کہ حضرت! آپ ایسے ہیں بس حضرتی کا نشہ چڑھ گیا اور اپنے نفس کو بھول گئے۔ اﷲ والے ایسے وقت اور شرمندہ ہوجاتے ہیں اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس کی ستّاری کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت حاجی صاحب مہاجرمکی رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ مجھ سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں یہ سب حق تعالیٰ کی ستّاری ہے ورنہ اگر وہ ہمارے اَترے پترے کھول دیں تو سب معتقدین راہِ فرار اختیار کریں۔ پس مخلوق کا حُسنِ ظن بھی حق تعالیٰ کا انعام ہے اور اپنے کو کمتر اور حقیرسمجھنا درجۂ یقین میں ایک بیّن حقیقت کو تسلیم کرنا ہے اور عبدیتِ کاملہ کے لوازم سے ہے۔پانچواں باب رِیا (دکھاوا) ریاکہتے ہیں کسی عبادت اور نیکی کو کسی شخص کو دکھانے کے لیے کیا جاوے اور اس سے کوئی دُنیوی غرض اور اس سے مال یا جاہ حاصل کرنے کی نیت ہو۔ لیکن اگر اپنے استاد یا مرشد یاکسی بزرگ کو اس نیت سے اچھی آواز بناکر قرآنِ پاک سنائے کہ اُن کا دل خوش ہوگا تو یہ ریا نہیں جیسا کہ روایت حدیث کی موجود ہے کہ ایک صحابی کا قرآن رات میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سُنا اور دن میں اُس کو مطلع فرما کر اظہارِ مسرت فرمایا تو اُن صحابی نے عرض کیا کہ اگر ہم کو علم ہوتا کہ آپ سُن رہے ہیں تو میں اور عمدہ