روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ایک بزرگ نے ایک بزرگ سے کہا کہ ہمارے دل میں اپنے والد صاحب کی محبت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ایمان کا کیا حال ہوگا۔ وہ بزرگ محقق عارف تھے، خاموش ہوگئے۔ بعد مدت ایک دن فرمایا کہ آج آپ کے یہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محاسنِ سیرت کا ذکر شریف کریں گے۔ خوب فصاحت اور محبت سے حالات اور اوصاف سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم بیان کرتے کرتے اچانک رُک کر فرمایا کہ مگر آپ کے والد صاحب میں بھی حسب ذیل خوبیاں ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ بزرگ ناراض اور غصّہ ہوئے اور فرمایا کہ یہ کیا جوڑ ہے؟ کہاں ذکرِ حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کہاں آپ نے ہمارے ابّا کا نام اس وقت بے موقع لے لیا؟ مولانا !ابّا کا ذکر چھوڑیے، جو بیان فرمارہے تھے اسی کو بیان فرمائیے۔ بس اُن محقق عارف بزرگ نے فرمایا کہ اب تو سمجھ میں آگیا ہوگاکہ محبت آپ کے دل میں کس کی زیادہ ہے۔ آپ کا شبہ اور خلجان دور ہوا یا نہیں؟ خوب ہنسے اور فرمایا ؎ جزاک اللہ کہ چشمم باز کردی مرابا جانِ جاں ہمراز کردی فرمایا: ہاں بھائی !ہم غلطی پر تھے۔ محبتِ طبعی کے سبب ہم کو یہ شبہ تھا اب معلوم ہوا کہ محبتِ عقلی اور محبتِ ایمانی اصل چیز ہے اور اس کا پتا تقابل سے ہوتا ہے۔ حدیثِ بالابخاری شریف میں مروی ہے اور اس میں حلاوتِ ایمانی کو شرح بخاری میں ملاحظہ فرمایئے:حلاوتِ ایمانی کےمتعلق حافظ ابنِ حجر عسقلانی کی تحقیق حلاوتِ ایمانی کے متعلق بخاری شریف میں اسی حدیث کے متعلق امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے مستقل باب حلاوۃ الایمان کے نام سے قائم فرمایا ہے اور ابنِ حجر رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مقصود مصنف کا اس باب سے یہ بتلانا ہے کہ اِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ مِنْ ثَمَرَاتِ الْاِیْمَانِ ایمانی حلاوت ایمان کے پھلوں سے ہے۔ چوں کہ کلمۂطیبہ کی مثال حق تعالیٰ شانہٗ نے شجرۂ طیبہ سے قرآنِ پاک میں بیان فرمائی: