روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے،ایک دن ایک بے تکلف دوست نے کہا: مولانا! کیوں جاتے ہو، گنگوہ میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا ؎ لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیںآثارِ فنائیت لوازمِ نسبت سے ہے احقر عرض کرتا ہے کہ یہ پندار اور خود بینی اور انانیت بدون صحبت مرشد کامل اور بدون عطاء نسبت فنا نہیں ہوتی۔حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب رحمۃاﷲ علیہ (خلیفہ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ ) نے اس مضمون کی تائید میں ایک عجیب اور لطیف استدلال پیش فرمایا ہے جو احقر کو ڈاکٹر صلاح الدین صاحب سے معلوم ہوا، وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ؎ سلاطین جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ وبالا کردیتے ہیں اور اس بستی کے معززین کو ذلیل کردیتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ یعنی جب کسی شہر میں لڑائی کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو شہر والوں کو خراب کردیتے ہیں اور سرداروں کو بے عزّت کردیتے ہیں یعنی امیروں اور وزیروں کو سخت ذلیل کرتے ہیں یا قتل کردیتے ہیں یا گرفتار کرلیتے ہیں اور حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ اَذِلَّۃً تک بلقیس کا قول ہے وَ کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ حق تعالیٰ کا قول ہے۔؎ حضرت شاہ صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے ارشاد فرمایاکہ اس آیت سے یہ بات قلب میں وارد ہوئی کہ یہی حال تجلیاتِ ربانی کا ہے۔ جب سالکین کو ذکر اور صحبتِ اہل اللہ کی ------------------------------