روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
میری تباہی کا کیا عالم ہوتا! اسی طرح تھوڑی دیر تصور کرتا رہے کہ حق تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں اور میں اس محبوبِ حقیقی کے سامنے بیٹھا ہوں اور دل ہی دل میں استغفارکرتا رہے اور دُعا کرتارہےکہاے اﷲ!اس تصور کو کہآپ مجھےدیکھ رہے ہیں میرے دل میں جمادیجیے۔پھر ان عبارات کو غور سے پڑھے جو حضرت حکیم الامّت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے اِرشادات سے ماخوذ ہیں۔7)ملخص از وعظ غضِ بصر خلاصہ یہ ہے کہ کسی کے پاس بدنگاہی کے جائز ہونے کا کچھ سہارا نہیں بلکہ بدنگاہی ہر طرح سے حرام اور بڑابھاری گناہ ہے۔ یہاں پر یہ کہے کہ اے اﷲ!اس حرام و بھاری گناہ کا ایک پہاڑ میرے سر پر ہے اور ایک عمراس میں تباہ ہوئی ہے، میری اس تباہ شدہ عمر پر رحم فرما دیجیے کہ آپ ارحم الراحمین ہیں بجزآپ کے ہمارے اوپر دوسرا کوئی رحم کرنے والا نہیں ہے۔ جیسے بدنگاہی حرام ہے اسی طرح دل سے سوچنا بھی حرام ہے اور اس کا ضرر بدنگاہی سے بھی زیادہ ہے۔بدنگاہی سے اعمالِ صالحہ کا نور سلب ہوجاتا ہے، دل کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خاتمہ بدنگاہی کی نحوست سے کفر پر ہوا یعنی عشقِ مجازی میں مبتلا ہو کرآخر سانس تک خلاصی نہ پاسکے اور کلمہ کے بجائے منہ سے کچھ اورنکل گیا۔ جب کوئی غیر محرم عورت سامنے آئے تو نگاہ کو نیچی کرلے اور ہرگز اُدھر گوشۂ چشم(کن انکھیوں) سے بھی نہ دیکھے۔اگرچہ شیطان ڈرائے کہ نہ دیکھے گا تو دَم نکل جائے گا، دَم نکلنے کی بھی پرواہ نہ کرے، اور یوں سوچے کہ مر بھی گیا تو کیا ہی عمدہ موت ہوگی(یعنی شہادت)۔ بدنگاہی کے بعد دل میں ایسی ظلمت پیدا ہوتی ہے کہ ذکر وغیرہ میں بے کیفی ہوجاتی ہے اور بار بار تقاضےکے باوجود جب تک حفاظتِ نظر نہ کی جائے اور استغفار خوب نہ کی جائے اس وقت تک دل صاف نہیں ہوتا۔ بدنگاہی سے کبھی ذکر و شغل سے وحشت ہونے لگتی ہے پھر یہ وحشت نفرت سے بدل جاتی ہے اور کفر تک پہنچا دیتی ہے (العیاذ باﷲ)۔بدنگاہی کے مرتکب کی آنکھیں بے رونق ہوجاتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دل بے رونق ہوجاتا ہے، جب دل کا نور سلب