روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ اہلِ ظاہر اہلِ باطن سے اسی وقت تک منحرف اور گریزاں اور نفور رہتے ہیں جب تک ان کا باطن ان کے باطن سے بے خبر ہوتا ہے لیکن بعد معرفت وہ اپنے باطن کو ان کے باطن کے سامنے قلاش وتہی مایہ سمجھتے ہوئے ان کے سرمایۂباطنی سے خوشہ چینی کے لیے سراپا عجزونیاز ومحبت اور غلام ہوجاتے ہیں۔لطف صحبتِ اہل اللہ اہل اللہ کی صحبت کے لطف پر میرا شعر ہے ؎ حاصل جسے کہ آپ کی صحبت مدام ہے دنیا میں رہ کے پھر بھی وہ جنّت مقام ہے دوسرا شعر فارسی میں ہے ؎ میسر چوں مرا صحبت بجانِ عاشقاں آید ہمیں بینم کہ جنت بر زمیں از آسماں آید یہ شعر الٰہ آباد میں ہوا۔احقر نے حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کی خدمت میں ایک مضمون عرض کیا تھا جس پر حضرت کو وجد آگیا اور پھر اس مضمون کو بعد عصر کی مجلس میں دوبارہ بیان کرنے کا حکم فرمایا۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ کو وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ؎ پر مقدم فرمایا ہمارے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس تقدیم سے حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے مقبول بندوں کی معیت اور رفاقت کو جنّت کی نعمت پر افضل قرار دیا ہے۔ پھر احقر مؤلف نے عرض کیا کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ مکین افضل ہوتے ہیں مکان سے اور اہلِ جنّت مکین ہیں اور جنّت مکان ہے نیز جنّت کے یہ مکین دنیا ہی سے جاتے ہیں اور ہر زمانے میں یہاں موجود ہوتے ہیں۔ پس جس نے یہاں ان کی صحبت اور رفاقت کو اخلاص اور صدقِ دل سے اختیار کیا تو اس نے افضل نعمت تو یہیں پالی پھر مفضول نعمت بھی ضرور پالے گا پس ------------------------------