روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جَسَدِہٖ اَوْ فِیْ مَالِہٖ اَوْفِیْ وَلَدِہٖ ثُمَّ صَبَّرَہٗ عَلٰی ذَالِکَ حَتّٰی یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ اللَّتِیْ سَبَقَتْ لَہٗ مِنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ؎ ارشاد فرمایا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ کسی بندےکے واسطے خدا کی طرف سے جب کوئی درجہ مقدر ہوچکے اور پھر بندہ اس درجے کو اپنے عمل سے نہ پہنچ سکے تو اللہ تعالیٰ اس پر تکلیف بھیجتا ہے اس کے بدن میںیا اس کے مال میں یا اس کے بچوں میں پھر حق تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیںیہاں تک کہ اس درجے تک پہنچادیتے ہیں جو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوچکا ہے۔حدیثِ سوم اَوَّلُ مَنْ یُّدْعٰی اِلَی الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الَّذِیْنَ یَحْمَدُوْنَ اللہَ فِی السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ ؎ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جنّت کی طرف سب سے پہلے قیامت کے دن جو بلایا جاوے گا وہ لوگ ہوں گے جو فراخی اور تنگی میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ روح المعانی میںسرّاء وضرّاء کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اَلسَّرَّاءُ الْحَالَۃُ اللَّتِیْ تَسُرُّ وَالضَّرَّاءُ الْحَالَۃُ اللَّتِیْ تَضُرُّ؎ سرّاء ہر وہ حالت ہے جو خوشی پیدا کرے اور ضرّاء ہر وہ حالت ہےجو ضرر سےغمگین کرے۔ایک اشکال اور اس کا جواب حالتِ خوشی میں اللہ تعالیٰ کی حمد سمجھ میں آتی ہے لیکن حالتِ ابتلاء اور حالتِ غم میں اللہ تعالیٰ کی حمد کس طرح کی جاوے تو ملّاعلی قاری رحمۃاﷲ علیہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ تکالیف میں حمد سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ پر اعتراض نہ ہو اور اپنے مولیٰ سے راضی رہیں۔ عبارتِ مرقاۃ ملاحظہ ہو: ------------------------------