روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ فَالْکَلِمَۃُ ھِیَ کَلِمَۃُ الْاِخْلَاصِ وَالشَّجَرَۃُ اَصْلُ الْاِیْمَانِ وَ اَغْصَانُہَا اِتِّبَاعُ الْاَمْرِ وَاجْتِنَابُ النَّہْیِ وَوَرَقُہَا مَایَہْتَمُّ بِہِ الْمُؤْمِنُ مِنَ الْخَیْرِ وَثَمَرُہَا عَمَلُ الطَّاعَاتِ وَحَلَا وَۃُ الثَّمَرِ جَنْیُ الثَّمَرَۃِ وَغَایَۃُ کَمَالِہٖ تَنَاھِیْ نَضْجِ الثَّمَرَۃِ وَبِہٖ تَظْہَرُ حَلَا وَتُھَا۔کلمۂ طیبہ کی مثال شجرۂ طیبہ ہے پس کلمۂ وہی کلمۂ اخلاص ہے اور شجرہ ایمان کی جڑ ہے اور اس کی شاخیں احکام کی اتباع اور نواہی سے اجتناب ہے اور اس کے اوراق مؤمن کا جملہ خیر کے اعمال کا اہتمام ہے اور اس کا پھل طاعات ہیں اور پھل کی مٹھاس پختگی ہے پھلوں کی، اور کمالِ حلاوت پھل کا خوب پختہ ہوجانا ہے اوراسی سے اس کی حلاوت کا ظہور ہوتا ہے۔ محبت سے مراد حُبِّ عقلی ہے۔تفسیرِ بیضاوی کے حوالے سے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اﷲ علیہفرماتے ہیں: وَالْمُرَادُ ہُنَا الْحُبُّ الْعَقْلِیُّ الَّذِیْ ہُوَ اِیْثَارُ مَایَقْتَضِی الْعَقْلُ السَّلِیْمُ رُجْحَانَہٗ لِاَنَّ الْمَرِیْضَ الصَّفْرَاوِیْ یَجِدُ طَعْمَ الْعَسْلِ مُرًّا وَالصَّحِیْحُ یَذُوْقُ حَلَاوَتَہٗ عَلٰی مَا ہِیَ عَلَیْہِ۔ اور مراد محبت سے اس حدیث میں محبتِ عقلی ہے جس کو عقلِ سلیم اختیار کرلے کیوں کہ مریض صفراوی شہد کو کڑوا محسوس کرتا ہے اور تندرست اس کااصلی ذائقہ پاجاتا ہے۔ وَمَعْنٰی حَلَا وَۃِ الْاِیْمَانِ اسْتِلْذَاذُ الطَّاعَاتِ وَتَحَمُّلُ الْمَشَاقِّ فِی الدِّیْنِ وَاِیْثَارُ ذٰلِکَ عَلٰی اَعْرَاضِ الدُّنْیَا اور حلاوتِ ایمانی کا مفہوم عبادات میں لذّت محسوس کرنا، دین کی تمام تکالیف کو برداشت کرنا اور دنیا کے مال واسباب پر ایمان کے تقاضوں کو ترجیح دینا۔یہ محبت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ وَمَحَبَّۃُ الْعَبْدِ لِلہِ تَحْصُلُ بِفِعْلِ طَاعَتِہٖ وَتَرْکِ مُخَالَفَتِہٖ وَکَذٰلِکَ الرَّسُوْلُ؎ ------------------------------