روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اور اگر گناہ کا تعلق انسان کے حقوق سے ہے تو اس کے لیے چار شرطیں ہیں۔ تین تو یہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں اور چوتھی شرط یہ ہے کہ اَنْ یَّبْرَأَ مِنْ حَقِّ صَاحِبِہَا؎ اس انسان کے حق سے بری الذمہ ہو۔توبہ اور استغفارکے متعلق حکیم الامّتکے ارشادات (از: کمالاتِ اشرفیہ) ۱) فرمایاکہ اگر ساری زمین گناہوں سے بھر جاوے تو توبہ سب کو مٹادیتی ہے۔ دیکھیے بارود ذرا سا ہوتا ہے مگر بڑے بڑے پہاڑوں کو اُڑا دیتا ہے۔ (ص:۵۸، م: ۲۴۸) ۲) فرمایاکہ بندہ اگر اس وجہ سے توبہ نہ کرے کہ میرے گناہ اس قدر ہیں اور اس درجہ کے ہیں کہ توبہ سے کچھ فائدہ نہ ہوگا یہ بھی حماقت ہے اور شیطان کا جال ہے۔ کیوں کہ گویہ صورتاً شرمندگی ہے لیکن حقیقت میں یہ کبر ہے کہ اپنے کو اتنا بڑا سمجھتا ہے کہ گویا اس نے حق تعالیٰ کا ایسا نقصان کر دیا ہے کہ اب اس کو وہ معاف نہیں کرسکتے۔ یادرکھو یہ برتاؤ بالکل مساوات کاسا ہے حالاں کہ خدا تعالیٰ اور اس کی صفاتِ کاملہ کے سامنے تمہاری اور تمہارے افعال کی ہستی ہی کیا ہے۔ سارا عالم بھی نافرمان ہوجاوے تو اُن کا ذرّہ برابر بھی کچھ نقصان نہیں ہوسکتا نہ ان کو عفو وکرم سے مانع ہوسکتا ہے۔ مشہور ہے ایک بیل کے سینگ پر ایک مچھر جا بیٹھا، جب وہاں سے اڑنے لگا تو بیل سے معذرت چاہی کہ معاف کیجیے گا آپ کو میرے بیٹھنے سے بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ بیل نے کہا: ارے بھائی! مجھ کو تو خبر بھی نہیں ہوئی تو کب بیٹھا اور کب اُڑا۔ (ص:۵۷ ،م :۲۴۵) ۳) فرمایاکہ اگر بندوں کو رحمتِ حق کا مشاہدہ ہونے لگے تو گناہوں کو بڑا سمجھنے پر شرمندی ہوگی۔ نااُمیدی تو بھلا کیا ہوتی۔ مگر اس شرمندگی کے مقتضا پر(کہ توبہ نہ کرے) عمل نہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ گناہ اگرچہ رحمتِ حق کے مقابلے میں چھوٹے ہیں مگر تمہارے لیے تو بڑے ہی ہیں۔ تولہ بھر سنکھیا اگرچہ من بھر تریاق کے سامنے چھوٹا ------------------------------