روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جانور تو بھوسہ گھاس سے موٹا ہوتا ہے اور آدمی کان کی راہ سے اپنی تعریف سُن کر موٹا ہوتا ہے۔علاج اِس کا علاج بھی موت کییاد ہے کہ اگر ساری دُنیا میرے قدموں میں لگ جائے تو قبر میں کیا ہوگا۔ وہاں کون سلام کرنے آئے گا اور کس کی تعریف کام آئے گی۔ ایسی فانی خوشی چنددن کی کس کام کی؟ ایسی خوشی حاصل کرے جو کبھی فنا نہ ہو اور وہ حق تعالیٰ سے تعلق اور اُن کو راضی کرنا ہے۔ جب کوئی تعریف کرے تو یہ سوچے کہ یہ حق تعالیٰ کی ستّاری ہے،ظاہری اور باطنی اور معنوی تمام نجاستوں کو چھپا رکھا ہے۔ حسّی نجاست یہ ہے کہ پیٹ میں پیشاب اور پائخانہ بھرا ہے، اگر کوئی سوراخ پیٹ میں ہوتا اور اُس سے بھپکا بدبودار نکلا کرتا تو معلوم ہوتا کہ کتنے لوگ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی تعریف کرتے! پس حق تعالیٰ کا شکر بجا لائیں کہ اُس نے کس طرح ستّاری کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ اِس طرح معنوی نجاست یعنی گناہوں کا معا ملہ ہے کہ حق تعالیٰ ہمارے عیوب کو چھپائے ہوئے ہیں، اور دل میں جو گندے گندے شہوت کے خیالات آتے ہیں اگر اُن خیالات سے مخلوق کو آگاہی ہوجاوے تو معلوم ہوگا کہ پھر حضرت اور شیخ صاحب کے القاب کون استعمال کرتا ہے پس حق تعالیٰ کی ستّاری ہے کہ وہ ہمارے گندے وساوس اور گندے اعمال پر مخلوق کو مطلع نہیں فرماتے لیکن حق تعالیٰ کی ستّاری کا شکریہ کیا یہ ہی ہے کہ ہم اپنے کو بڑا سمجھیں یا مخلوق سے تعریف چاہنے لگیں؟بلکہ اور ہم کو اپنے کو مٹادینا چاہیے اور ہر وقت ندامت اور شرمندگی طاری رہنی چاہیے کہ یا اﷲ!آپ کا احسان ہے ورنہ اگر یہ ستّاری نہ ہوتی تو مخلوق ہم کو پتھر مارتی۔ فقیری اصل یہی ہے کہ اپنے کو مٹا دے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے مرشد حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں یہ شعر کہا تھا ؎ نہیں کچھ اور خواہش آپ کے دَر پر لایا ہوں مٹا دیجیے مٹا دیجیے میں مٹنے ہی کو آیا ہوں