روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کرتے تھے کہ جس نے اپنے کو مستقل بالذات سمجھا وہ مستقل بدذات ہوجاتا ہے۔ ہمیشہ اپنے اوپر کسی بڑے کا سایہ رکھے اور ان سے مشورہ لیتا رہے، مشایخ بھی اس سے مستغنی نہیں ہیں انہیں بھی اگر بڑا نہ ملے تو اپنے معاصرین یا چھوٹوں سے مشورہ لے لینا چاہیے۔ اور ارشاد فرمایا کہ شیخِ اوّل کے انتقال کے بعد فوراً دوسرا شیخ منتخب کرلینا چاہیے۔ہفت اختر حضرت حکیم صاحب مدظلہٗ نے مجلس کے آخر میں جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں انہیں ہم اختصار کے پیشِ نظرسات میں محصور کرکے مجموعی طور پر ایک ہی عنوان کے تحت ذیل میں پیش کررہے ہیں: ۱) آج کل بدگمانی کی بیماری عام ہے،اچھے اچھے لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس بھی اس سے خالی نہیں رہے، عام حیثیت سے بھی اور ان مدارس میں بھی ایک دوسرے سے اعتماد اُٹھتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی بدگمانی اور غلط فہمی ہے، اس لیے ہمیشہ ایک دوسرے سے ذہن صاف رکھنا چاہیے۔ خوش گمانی قائم رکھنی چاہیے اور بدگمانی کو راہ دینے والی کوئی بات سامنے آئے تو خلوص اور محبت کی فضا میں تحقیق کرلینی چاہیے۔یاد رکھیے قیامت میں بدگمانی پر دلائل طلب کیے جائیں گے، خوش گمانی پر نہیں، اس لیے ایسا کام کیوں کیا جائے جس میں گرفت اور مؤاخذہ ہو، اور وہ کام کیوں نہ کیا جائے جس میں چھوٹ اور آزادی ہو۔ ۲) آج کل بہت سے عَالِم احساسِ کمتری کا شکار ہیں، وہ بھی دنیا کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں حالاں کہ ان کے پاس جس علم کی انمول دولت ہے اس سے دنیا کا خزانہ خالی ہے۔ عالموں کو احساسِ بلندی پیدا کرنا چاہیے اور اپنی قدر وقیمت پہچاننی چاہیے جب ہی دوسرے لوگ ان کی قدروقیمت پہچانیں گے۔ ۳) آپ دین کے کاموں میں ایک دوسرے کے رفیق بنیے، فریق نہ بنیے۔ ۴) حضرت ہردوئی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: اگر کسی میں کوئی بُرائی نظر آئے تو نکیر تو کیجیے مگر تحقیر نہ کیجیے۔