روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ورنہ وہ قوت کم ہوجاتی ہے پس اگر غم نہ ہوتا تو رحم دِلی کا ہیجان کیسے ہوتا اور جب اس کا ہیجان نہ ہوتا تو اس کا مادّہ جاتا رہتا اور بدون رحم دِلی کے تعاون نہیں ہو سکتا اس لیے غم میں بڑی مصلحت ہے، یہ محافظ ہے ترحم کا اور وہ محافظ ہے تعاون وتمدن کا ،اور غم میں اپنی ذات کے متعلق بھی مصلحت ہے کہ اس سے اخلاق دُرست ہوتے ہیں۔ غرض غم میں انفرادی اور اجتماعی دونوں مصالح ہیں، اگر کسی کو غم اور فکر نہ ہو، سارے بے فکر ہی ہوں تو کوئی کسی کا کام نہ کرے۔ سارے تندرست ہی رہیں اور بیمار ہی نہ ہوں تو ڈاکٹر طبیب،عطار سب بے کار ہو جاویں۔ یہ تو دنیاوی نفع ہے۔ اور دین کا نفع یہ ہے کہ اگر کوئی غریب نہ ہو تو زکوٰۃ کس کو دوگے؟ پس اصل میں تو غم مفید چیز ہے مگر کس قدر؟ جس قدر حق تعالیٰ کا دیا ہوا ہے یعنی طبعی باقی آگے جو حواشی ہم نے بڑھائے ہیں وہ بُرے ہیں۔ ملفوظ: ۶۴۷،ص: ۱۴۹فرمایاکہ حد سے زیادہ غم کرنا گناہ ہے اور گناہ بھی بےلذّت اور علاج کرانا واجب ہوگا۔ چناں چہ اس آیت مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ؎ میں ایسے ہی غم کا علاج بیان ہے اور یہ بیان ایک مقدمے پر موقوف ہے وہ یہ کہ اگر شئے مرغوب کے جاتے رہنے سے غم لاحق ہو مگر وہ دوسری چیز کا پتا ہم کو مل جاوے اور اس کے ملنے کا یقین ہو جوکہ اس شئے مرغوب سے ہزارہا درجہ بڑھی ہوئی ہو تو پہلی چیز کا غم نہیں ہونا چاہیے جیسے کسی کے ہاتھ میں ایک روپیہ ہو اور اس کو چھین کر کوئی سو روپیہ دے دے۔ الختسلیم ورضاء بالقضا فرض ہے ہر تکلیف میں مؤمن کے لیے خیر ہے اور اس میں خیر سمجھنا ایسا ہی فرض ہے جیسے نماز روزہ فرض ہے۔ میرے مرشد حضرت شیخ مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃاﷲ علیہ نے احقر سے فرمایا کہ ہمارے حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا کہ اخلاص سے اونچا بھی ایک مقام ہے اس کا نام رضا بالقضاء ہے۔ یہ مقام بہت آخر میں عطا ہوتا ہے، جس طرح مرض جاہ کا بہت آخر میں نکلتا ہے اٰخِرُ مَا یَخْرُجُ مِنْ ------------------------------