روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جوابِ اشکال بر کراہتِ اسبال بدون خیلاء سوال: آنجناب کے کسی رسالہ کے منہیہ سے مفہوم ہوتا ہے کہ اسبال مطلقًا ممنوع ہے حالاں کہ بعض احادیث میں خیلاء کی قید موجود ہے۔ وَالْمُطْلَقُ یُحْمَلُ عَلَی الْمُقَیَّدِ وَاَیْضًا یُؤَیِّدُہٗ مَا فِیْ تَارِیْخِ الْخُلَفَاءِ لِلسُّیُوْطِیْ مَانَصُّہٗ اَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ جَرَّ ثَوْبَہٗ خُیَلَاءَ لَنْ یَّنْظُرَ اللہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اِنَّ اَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِیْ یَسْتَرْخِیْ اِلَّا اَنْ اَتَعَاہَدَ ذٰلِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذٰلِکَ خُیَلَا ءَ تَارِیْخُ الْخُلَفَاءِ فِیْ فَصْلٍ فِی الْاَحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِیْہِ فَضْلُ اَبِیْ بَکْرِ نِالصِّدِّیْقِ مَقْرُوْنًا بِعُمَرَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا وَاِلَیْہِ ذَہَبَ الشَّیْخُ وَلِیُّ اللہِ الْمُحَدِّثُ الدِّھْلَوِیُّ فِی الْمُصَفّٰی جواب: حنفیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مطلق اپنے اطلاق پر اور مقید اپنی تقیید پر رہتا ہے اور دونوں پر عمل واجب ہوتا ہے کَمَا ہُوَ مُصَرَّحٌ فِی الْاُصُوْلِ اور جو حدیث تائید میں نقل کی ہے خود سوال میں تصریح ہے کہ وہ عمدًا نہ کرتے تھے۔ پس جواب کے بھی یہی معنیٰ ہیں اِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذٰلِکَ عَمَدًا چوں کہ خیلاء سبب ہوتا ہے تعمّد کا پس سبب بول کر مسبّب مراد لیا گیا۔ (امداد الفتاویٰ، جلد:۴، صفحہ: ۱۲۲ تا ۱۲۳) أ أ أ أ