روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
بِالْاَوْبَۃِ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ؎ اگر دل غیرِ حق میں لگ کر حضوری سے غائب ہوجاوے تو پھر دل کو بارگاہ قربِ حق میں حاضر کردینا جس کو صوفیا استحضارِ قلب سے تعبیر کرتے ہیں یعنی دل سے ہروقت حق تعالیٰ شانہٗ کا دھیان رکھنا اسی کو حضورِ دائم اور نسبت مع اللہ کا رسوخ بھی کہا جاتا ہے۔ احقر عرض کرتا ہے کہ ہر خطا شر ہے لیکن اہلِ شر ہونے کے باوجود توبہ کی برکت سے خیرالخطائین ہوگئے۔ شراب سرکے سے تبدیلی ہوگئی۔ شر پر توبہ کی برکت سے آفتابِ رحمت نےیہ اثر دکھایا کہ قلبِ ماہیت کردیا ؎ کیست ابدال آنکہ او مبدل شود خمرش از تبدیلِ یزداں خل شود مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں ابدال کون ہیں جوکہ حق تعالیٰ کے کرم سے تبدیل ہوگئے یعنی ان کے اخلاقِ رذیلہ تبدیلِ رحمتِ حق سے اخلاقِ حمیدہ ہوگئے یعنی اخلاقِ رذیلہ کی شراب قدرتِ خداوندی سے سرکہ ہوگئی۔ حق تعالیٰ کی شانِ رحمت تو دیکھیے کہ توبہ کا یہ انعام کہ خطاکار کو خیر سے یاد فرمایا، خطاکار تو تھے اب توبہ کی برکت سے خیرالخطائین بہتر خطاکار ہیں۔ایک اشکال اور اس کا جواب ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ جب خیر کا لقب ملاتو پھر خطّائین کی نسبت بھی مٹادیتے ان کے کرم سے کیا بعید ہے۔ خطائین کی نسبت سے تو پھربھی ان کی خطاؤں پر نشاندہی اور علامت باقی رہی۔ احقر عرض کرتا ہے کہ ترکیب اضافی میں مضاف ہی مقصود ہوتا ہے جیسے جَاءَ غُلَامُ زَیْدٍآیا زید کا غلام، تو آنے میں مقصود کلام صرف غلام ہے زید کی آمد مراد نہیں، پس خیرالخطائین میں اگرچہ مضاف الیہ سے تعلق ہے لیکن مقصود کلام میں ------------------------------