روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
فِی السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ اَیْ فِی الصِّحَّۃِ وَالْمَرَضِ اَوِ الرَّخَاءِ وَالشِّدَّۃِ اَوِالْغِنٰی وَالْفَقْرِ یَعْنِی الَّذِیْنَ یَرْضَوْنَ عَنْ مَّوْلٰہُمْ بِمَا اَجْرٰی عَلَیْہِمْ مِنَ الْحُکْمِ غِنًا کَانَ اَوْ فَقْرًا، شِدَّۃً کَانَ اَوْ رَخَاءً ،فَالْمُرَادُ الدَّوَامُ فَہُوَ مِنْ اَسَالِیْبِ الْبَدِیْعِ الْغَرِیْبَۃِ؎ یعنی راضی رہتے ہیں اپنے مولیٰ سے جملہ ان تصرفات پر جو ان پر قضاءً جاری ہوتا ہے۔ غنیٰ ہو یا فقر ،کلفت ہو یا راحت، مراد دوامِ رضاہے جس کو عنوانِ بدیعہ غریبہ سے بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا جواب ملّاعلی قاری رحمۃاﷲ علیہ نے یہ لکھا ہے کہ مؤمن حالت ِتکلیف میں خدا تعالیٰ کی حمد اس لیے کرتا ہے لِعِلْمِہٖ بِمَا یُثَابُ عَلَیْہِ اَوْعَلٰی اَنَّہٗ مَا وَقَعَ اَکْبَرُ اَوْاَکْثَرُ مِنْہَا یعنی مؤمن اجرِ آخرت کے علم کے سبب خدا کی حمد کرتا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ جو بلا آئی ہے شکر ہے کہ اس سے بڑی بلا نہیں آئی یا اس سے کثیر نہیں ہے۔ اکبر باعتبار کیفیت اور اکثر باعتبار کمیت دونوں صورتوں سے حفاظت پر حمد کرتا ہے۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ بیان فرماتے ہیں ؎ ایں بلا دفع بلا ہائے بزرگ یہ بلا کسی بڑی بلا کو دُور کرنے کے لیے آئی ہے۔صبر اور غم کے متعلق حضرت حکیم الامّت تھانوی کا عجیب ارشاد (از: کمالاتِ اشرفیہ، ملفوظ: ۴۶، ص:۱۴۹) فرمایاکہ غم کا علاج یہ ہے کہ سوچو مت۔ خیال مت کرو۔ تذکرہ مت کرو، اس صورت میں غم تو ہوگا مگر معتدل غم ہوگا اور وہ مضر نہیں بلکہ مفید ہے کیوں کہ قدرتی طور پر غم میں بھی حکمت اور نفع ہے، اگر غم نہ ہو تو تمدن نہ ہو۔ بیان اس کا یہ ہے کہ سائنس اور طب کا مسئلہ ہے کہ جس قوت کا استعمال ہوتا ہے اس میں ترقی ہوتی رہتی ہے ------------------------------