روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اللہ میں اپنی آہ کو سمودیجیے فرمایاکہاللہ کو ہمیشہیاد کیجیے،اسی سے لَولگایئے اور تعلق جوڑیے،اللہ کہتے ہوئے اسے قدرے کھینچیے، پھر دیکھیے کتنا مزہ آتا ہے، اس وقت ایسا معلوم ہوگا کہ گویا اس لفظ اللہ میں آپ نے اپنی آہ سمودی ہے اور اپنی ساری فریاد اس لفظ کے ادا کرنے کے ساتھ ہی اس کے دربار میں پیش کردی۔بزرگانِ دین کو اہلِ دل کہنے کی وجہ فرمایاکہایک دن مجھے خیال آیا دل تو ہر انسان کے سینے میں ہے، اس لیے ہر شخص اہلِ دل ہے پھر اللہ والے کو خصوصیت کے ساتھ اہلِ دل کیوں کہتے ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ انہیں اہلِ دل اس لیے کہنا مناسب ہے کہ یہ اپنا دل اللہ کو دے چکے ہوتے ہیں، ہر وقت ان کا دل اللہ کے پاس ہی ہوتا ہے، جب دل دل دینے والے کو کسی نے دے دیا، تو اسے اہلِ دل ہی کہنا چاہیے ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد (اخترؔ)چھینک کے وقت اَلْحَمْدُلِلہِ کہنے کی حکمت فرمایاکہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو چھینک آئے تو وہ اَلْحَمْدُلِلہِ (تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) کہے، لوگوں نے اس موقع پر اَلْحَمْدُلِلہ کی تعلیم دیے جانے کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں لیکن ایک حکمت ان سب میں نرالی ہے۔ شاید آپ نے یہ حکمت نہ کسی کتاب میں پڑھی ہو نہ کسی سے سُنی ہو، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں بنایا ہے مگر جب اس کو چھینک آتی ہے تو اس وقت اس کی شکل بگڑ جاتی ہے چوں کہ چھینک کے بعد شکل اپنی