روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کسی کے اٹھائے اور چلائے بغیر نہ اٹھ سکتی ہے نہ کسی پر چل سکتی ہے، اور آپ کو یہاں کوئی مقناطیسی اثر نظر نہیں آرہا ہے تو یہ زمین وآسمان اور چاند، ستارے، سورج کا اتنا بڑا اور ہمہ گیر نظام کسی کے چلائے بغیر کیوں کر چل سکتا ہے؟ یہاں بھی تو کسی ذات کو ماننا پڑے گا، جو عالم کے سارے نظام کو اپنے قبضۂقدرت میں رکھ کر چلارہی ہے، اور وہی خدا ہے۔ بزرگ کی کہی ہوئی بات ملحد کے دل میں اتر گئی، ایک لاٹھی نے اس کے دماغ کو روشن کردیا، اور تائب ہوکر خدا کی طرف رجوع ہوا۔ حضرت مولانا محمدادریس صاحب کاندھلوی رحمۃاﷲ علیہ(مؤلف تعلیق الصبیح، شرح مشکوٰۃ) خدا کے وجود پر اس واقعہ کو’’دلیلِ لٹھ‘‘ فرمایا کرتے تھے،اور میں اسے’’دماغ روشن کرنے والی لاٹھی‘‘ کہا کرتا ہوں۔ آج مغربی نظامِ تعلیم اور عصری تہذیب وتمدن نے بہت سے نوجوانوں کو خدا سے دور کردیا ہے، اور وہ تشکیک اور الحادو دہریت کی وادیٔ نامراد میں سرگرداں ہیں، ضرورت ہے کہ اس زبان وبیان میں انہیں سمجھاکر خدا سے قریب کیا جائے جس زبان وبیان کو یہ سمجھنے کے عادی ہیں، ہر شخص کے مناسبِ حال گفتگو کرنا اور علومِ نبوت سے اس کے دماغ کو روشن کرکے اسے راہِ راست پر لانے کی برموقع تدبیر اختیار کرنا یہی حکمت ہے اور یہ حکمت بزرگوں کی صحبت سے خوب سمجھ میں آتی ہے۔علمِ نبوت تو ہے، مگر نورِ نبوت نہیں فرمایاکہعلّامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ کا شمار علم وفضل کے اعتبار سے اونچے لوگوں میں ہوتا ہے، جب یہ زندہ تھے ہر طرف ان کے علم کا شہرہ اور غلغلہ تھا۔ مرنے کے بعد بھی ان کا علمی احترام کم نہ ہوا۔ شروع میں ان کے دل میں اہلاللہ کی کوئی وقعت وعظمت نہیں تھی،یہ سمجھتے تھے کہ انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں رہ گیا ہے اس لیے چہار دیواری میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں مگر جب ایک نادیدہ قوت انہیں کشاں کشاں مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس لے گئی اور ان سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تو ان کے فکرونظر کا پیمانہ بدل گیا، اس کے بعد تو انہیں اس وقت تک کی اپنی تصانیف اور علمی تحقیقات جسدِبے روح کی طرح نظر آنے لگیں، وہ فرمایا کرتے تھے: علم کا مزہ تو اب