روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
حلاوتِ ایمانی سے کیا مراد ہے؟ حلاوتِ ایمانی سے مراد معنوی حلاوت ہے یعنی باطن میں قلب و رُوح اس حلاوت کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃاﷲ علیہ نے عجیب بات بیان فرمائی کہ حسّی اور معنوی دونوں حلاوت مراد ہے: وَاَغْرَبَ ابْنُ حَجَرٍ حَیْثُ قَالَ: ذَوْقًا حِسِّیَّا اَوْ مَعْنَوِیًّا؎ احقر عرض کرتا ہے کہ بہت سے عشّاقِ حق کو حسّی طور پر یہ مٹھاس محسوس ہونا منقول ہے۔ چناں چہ مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ اللہ اللہ ایں چہ شیریں ست نام شیر و شکر می شود جانم تمام اللہ اللہ کیا پیارا نام ہے کہ اس نام سے جان میں دودھ اور شکر کے مل جانے والی مٹھاس محسوس ہورہی ہے۔ اور اس مٹھاس پر مولانا نے عجیب استدلال دیوان شمس تبریز میں پیش کیا ہے ؎ اے دل ایں شکر خوشتریا آنکہ شکر سازد اے دل ایں قمر خوشتریا آنکہ قمر سازد اے دل!یہ شکر (چینی) زیادہ میٹھی ہے یا شکر کا خالق اور بنانے والا زیادہ میٹھا ہے اور اے دل !یہ چاند جیسے حسین زیادہ اچھے ہیںیا ان کا بنانے والا زیادہ اچھا ہے۔ چہ باشدآں نگار خود کہ بنددایں نگارہا مثنوی میں ایک جگہ اور ارشاد ہے ؎ نامِ او چو بر زبانم می رود ہر بُنِ مُو از عسل جوئے شود جب میں اللہ پاک کا نام پاک لیتا ہوں تو اتنا لطف محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میرے بال بال ------------------------------