روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
مجھے فکر کی کیا ضرورت ہے جب آپ بڑے سر پر موجود ہیں۔ ۲) مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس کوئی بیٹھا ہوتا تو اشراق اور چاشت سب قضا کردیتے تھے اور مولانا رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی شان اور تھی کوئی بیٹھا ہو جب وقت اشراق کا یا چاشت کا آیا وضو کرکے وہیں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، یہ بھی نہیں کہ کچھ کہہ کر اٹھے کہ میں نماز پڑھ لوں یا اُٹھنے کی اجازت لیں۔ جہاں کھانے کا وقت آیا لکڑی لی اور چل دیے چاہے کوئی نواب ہی کا بچہ بیٹھا ہو، وہاں یہ شان تھی، جیسے بادشاہوں کی شان، ایک تو بات ہی کم کرتے تھے اور اگر کچھ مختصر سی بات کہہ دی تو جلدی سے ختم کرکے تسبیح لے کر ذکر میں مشغول ہوگئے ،کسی نے کوئی بات پوچھی تو جواب دے دیا گیا اور اگر نہ پوچھی تو کوئی گھنٹوں بیٹھا رہے انہیں مطلب نہیں۔ مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس جب تک کوئی بیٹھا رہتا بولتے رہتے۔ ۳) ارشاد فرمایاکہ ایک بار مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے فرمانے لگے کہ ایک بات پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ کی نظر فقہ پر بہت اچھی ہے، ہماری نظر ایسی نہیں، بولے: جی ہاں ہمیں کچھ جزئیات یاد ہوگئیں تو آپ کو رشک آنے لگا اور آپ مجتہد بنے بیٹھے ہیں ہم نے کبھی آپ پر رشک نہیں کیا۔ ایسی ایسی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ انہیں اپنے سے بڑا سمجھتے تھے اور وہ اُنہیں۔حکایت حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحب مولوی تجمل حسین صاحب نے حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے دریافت کیا کہ حضرت کا سب عمل سُنت پر ہے مگر مخلوق سے اس قدر بگڑنا یہ کیسی سُنّت ہے؟ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ میاں! ادھر آؤ اور کان میں فرمایا کہ اوپر کے جی سے میں کڑکا کرتا ہوں اور ہم نے اپنے خالق سے دُعا کرلی ہے کہ جس کے لیے بددُعا کروں وہ دُعا سمجھی جائے، ورنہ ہجومِ خلق سے نماز پڑھنا مشکل ہو۔ دہقانی لوگ بہت تنگ کریں۔