روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
بلکہ وسوسۂریا سمجھے اور بے فکری سے کام میں لگا رہے۔ ترمذی شریف میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲعنہ نے عرض کیا:یا رسول اﷲ!میں اپنے گھر میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے پاس آدمی آگیا اور مجھے یہ حالت پسند آئی کہ اُس نے مجھے اِس حالت میں دیکھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ،تیرے لیے دو اجر ہیں،ایک اجر پوشیدہ کا ایک اجر علانیہ کا۔ ؎ اِس حدیث سے کس قدر عابدین کے لیے بشارت ہے۔کبھی اپنی عبادت کا اظہار جاہ کے لیے ہوتا ہے،یہ بھی بدترین ریا ہے مثلاً احباب کے حلقے میں یہ کہنا کہ آج تہجد میں بہت لطف آیا اور خوب رونا آیا۔ اور بہت سویرے آنکھ کھل گئی ۔یہ باتیں سوائے اپنے مرشد کے کسی کے روبرو نہ کہنا چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ایک صاحب نے دو حج کیے تھے اور ایک جملے سے دونوں حج کا ثواب ضایع کردیا اور وہ اِس طرح کہ ایک مہمان کے لیے کہا کہ اے ملازم! تو اُس صراحی سے اِس کو پانی پلا جو میں نے دوسری بار حج میں مکہ شریف سے خریدی تھی۔علاج ریا کا علاج حصولِ اخلاص ہے اور حدیثِ پاک میں اخلاص کی حقیقت یوں ارشاد ہے کہ عبادت اِس دھیان سے کرے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں کیوں کہ اگر ہم اُن کو نہیں دیکھتے تو وہ تو ہمیں دیکھ ہی رہے ہیں۔ جب حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا دھیان ہوگا مخلوق کا خیال نہ آئے گا۔اور یہ مراقبہ یعنی دھیان مشق کرنے سے دل میں قائم ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر خلوت میں بیٹھ کر یہ تصورجمایا جائے کہ اﷲ تعالیٰ ہم کو دیکھ رہے ہیں۔ کچھ مدت تک اِس طرح مشق سے استحضارِ حق آسان ہوجاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اخلاص کا حصول اور ریا سے طہارت اہل اﷲکی صحبت اور اُن سے اصلاحی تعلق قائم کیے بغیر عادتاً ناممکن ہے۔ اِس لیے حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ------------------------------