روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کی موت کا سبب بنے اس لیے اس کے علاج کی طرف فوری توجہ کیجیے۔ اور جو بھی حالت ہے بلاکم وکاست اپنے شیخ یا کسی بزرگ سے بیان کردیجیے،اس میں نہ کسی طرح کی جھجھک محسوس کرنی چاہیے نہ کسی عار کو دل میں جگہ دینی چاہیے۔ بزرگانِ دین تو ایسے لوگوں سے بہت خوش ہوتے ہیں جو بلاتکلّف اپنے امراض ان سے بیان کرکے علاج کی خواہش کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی زندگی کا یہ دستور اور معمول بنالیا تو دیکھیں گے کہ آپ کس طرح رذائل سے پاک ہوکر فضائل کی بلندیوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔اصلاح کا اثر حضرت حکیم صاحب نے شیخ کی ضرورت اور اس کی اصلاح وتربیت کے جو دور رس اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اس پر روشنی ڈالنے کے بعد اس ذیل میں ایک واقعے کا ذکر فرمایاکہ دو اچھے عالم ہیں، لوگوں میں قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ مگر شیطان کا سب سے زور دار حملہ عالموں پر ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ جانتا ہے ہمارے دشمن تو اصل میں یہی ہیں۔ ایک دفعہ شیطان کے حملے کے زد میں یہ دونوں بُری طرح آگئے۔ ہوا یہ کہ کسی معاملے کو بنیاد بناکر شیطان نے ان دونوں کے درمیان نفرت کا بیج ڈال دیا۔ رفتہ رفتہ اس بیج نے تناور درخت کی شکل اختیار کرلی۔ نوبت بایں جا رسید کہ ہر دو کو ایک دوسرے کی صورت دیکھنا گوارہ نہ تھا۔ ہر جانب سے سخت غم وغصّہ کا اظہار، ذہنی گھٹن ان دونوں کو پریشان کررہی تھی، صلح وصفا ئی کی کوئی دوا کارگر نہ ہوئی، بلکہ حال یہ تھا کہ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ ان میں سے ایک کا اصلاحی تعلق ایک مرشدِ کامل سے تھا، ایک دن ان کے دل میں خیال آیا کیوں نہ حضرت کو صورت حال کی اطلاع دے کر مشورہ طلب کیا جائے۔ چناں چہ انہوں نے خط لکھا۔ یہ خط لکھنا دراصل اس بات کی علامت تھی کہ ان کا دل زندہ ہے اور مرض کا احساس ہے اور جنہیں مرض کا احساس ہوتا ہے تو اس کے علاج کی فکر کرتے ہیں، تو وہ اس سے افاقہ بھی پاتے ہیں۔ جواب میں حضرت نے جو علاج تجویزفرمایا اس کے پانچ اجزا تھے: