روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
۵)پابندی ذکرو معمولات اور اطلاع واتباع شیخ کامل کا اہتمام کرے کہ عادتاً تقویٰ کا رسوخ وبقاء ان ہی اُمور پر موقوف ہے۔قسمِ ثالث۔الصبرفی المصیبۃ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں اور دل راضی برضاء الٰہی تھا ؎ راہِ وفا میں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے صبر کی تیسری قسم مصیبتوں میں صبر کرنا ہے اور یہ تین قسموں پر مشتمل ہے: ۱) یعنی دل کو یہ اعتراض اور ناگواری نہ ہو کہ یہ مصیبت حق تعالیٰ نے ہم پر کیوں بھیجی؟ کیا ہم ہی رہ گئے تھے، العیاذ باللہ۔ ایسا خیال ایمان کو ضایع کردیتا ہے، ایسے وقت یہ مراقبہ کرے کہ یہ مصیبت حق تعالیٰ کی طرف سے میری اصلاح کے لیے آئی ہے کیوں کہ وہ حکیم ہیں اور حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا جس کا علم ہم کو ہونا ضروری بھی نہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ ماں اپنے بچے کے پھوڑے پر نشتر لگانے کے لیے جراح کو بلاتی ہے۔ بچہ تو روتا ہے لیکن ماں خوش ہوتی ہے کہ ابھی میرے بچے کے پھوڑے سے تمام مادّۂ فاسد نکل جاوے گا اور چین مل جاوے گا۔ ماں جراح کو فیس بھی دیتی ہے، دُعائیں بھی دیتی ہے اور بچے کے رونے کی پرواہ نہیں کرتی۔ اسی طرح حق تعالیٰ ہماری غفلت کا مادّۂ فاسد دور فرمانے کے لیے ہم پر مصیبت بھیجتے ہیں تاکہ دل کا پردۂ غفلت چاک ہو کیوں کہ درد وغم دل کو شکستہ کردیتا ہے اور حدیثِ قدسی میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس ہوتے ہیں، اور مصیبت پر صبر سے جو انعام قرب کا عطا ہوتا ہے اس کو اہلِ بصیرت اپنے قلب میں محسوس بھی کرتے ہیں۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎