روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اِس شعر کی تشریح یہ ہے کہ اگر اس حسین سے وصال ہوا تو عاشق حرص سے اس قدر مادۂمنویہ ضایع کردیتا ہے کہ اکثر بالکل نامرد ہوجاتا ہے پھر حکیموں کی خوشامد کرتا ہے اور کشتۂسنکھیا کھانا پڑتا ہے، اور اگر نہ اچھا ہوا تو سنکھیا کھا کر خود کشی کرتا ہے، اور اگر فراق ہی ہمیشہ رہا تو بھی تڑپ تڑپ کر کُتّے کی موت مرتا ہے۔ اِسی سبب سے حضرت خواجہ مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جب ان آتشی رخوں پر نظر اچانک پڑجاوے تو ان کے رخساروں کی سُرخی کو آگ سمجھ کر رَبَّنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پڑھو ؎ دیکھ مت اِن آتشی رخوں کو تو زنہار پڑھ رَبَّنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِچشم دید عبرتناک حکایات حکایت۱ احقر نے ایک شاعر خوش گلو دوکاندارکو دیکھا کہ نہایت پریشان اور دوکان پر خاک برس رہی ہے، نہ صفائی ہے نہ مال کا اسٹاک ہے۔ بال پاگلوں جیسے بکھرے، آنکھیں زیادہ جاگنے سے خشک، بے رونق اور اندر کو دھنسی ہوئی۔ احقر کو دیکھ کر اُس نے دوکان کے اندر بُلایا اور کہا کہ میں بہت پریشان ہوں، دوکان ختم ہورہی ہے، کسی کام میں جی نہیں لگتا ؎ کیا جی لگے گا اُس کا کسی کاروبار میں دِل پھنس گیا ہو جس کا کسی زُلفِ یار میں رات بھر نیند نہیں آتی، دوکان کی تباہی سے بال بچوں پر فاقے کی نوبت ہے، خدا کے لیے کسی اﷲ والے کے پاس لے چلو جہاں سکون حاصل ہو۔ احقر نے عرض کیا: آخر بات کیا ہے، سببِ پریشانی تو بتاؤ۔ کہا کہ عشقِ مجازی میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ پھر احقر کا پاکستان آنا ہوگیا، معلوم نہیں اُس غریب کا کیا حشر ہوا ؎ ہر عشقِ مجازی کا آغاز بُرا دیکھا انجام کا یا اﷲ کیا حال ہوا ہوگا