روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
فارغ ہوکر یہی عرض کیا کہ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ؎ اس آیت سے بھی ہدایت ہم کو کی گئی کہ ہم اپنے اعمال پر ناز نہ کریں بلکہ قبولیت کی فکر کرتے ہوئے درخواستِ قبولیت پیش کریں۔ علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اَیْ یَقُوْلَانِ رَبَّنَا، اَلتَّقَبُّلُ مَجَازٌ مِّنَ الْاِثَابَۃِ وَالرِّضَا لِاَنَّ کُلَّ عَمَلٍ یُّقَبِّلُ اللہُ تَعَالٰی فَہُوَ یُثِیْبُ صَاحِبَہٗ وَیَرْضَاہُ مِنْہُ علّامہ آلوسی رحمۃاﷲعلیہ نے کیا ہی خوب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے صیغہ تقبّل من باب تفعّل اختیار فرمایا۔ فِی اخْتِیْارِ صِیْغَۃِ التَّفَعُّلِ اعْتِرَافٌ بِالْقُصُوْرِ۔ یعنی اے خدا! ہمارا یہ عمل شرفِ قبولیت کا استحقاق نہیں رکھتا، آپ کریم ہیں اور کریم کی شان یہ ہے اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِغَیْرِ اسْتِحْقَاقٍ وَبِدُوْنِ الْمِنَّۃِ؎ پس آپ اپنے فضل سے قبول فرمالیجیے۔ اور علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ نے دوسری بات بھی عجیب نکتہ کی بیان فرمائی وہ یہ کہ یہ درخواستِ قبولیت دلیل ہے کہ عمل بندے کا خواہ کتناہی اخلاص پر مبنی ہو مگر اس کی قبولیت محض فضلِ خداوندی پر موقوف ہے۔ حق تعالیٰ کے ذمّے اس کا قبول کرنا واجب نہیں۔ کَمَا قَالَ الْاٰ لُوْسِیْ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی:وَفِیْ سُؤَالِ الثَّوَابِ عَلَی الْعَمَلِ دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ تَرَتُّبَہٗ عَلَیْہِ لَیْسَ وَاجِبًا۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ اَیْ سَمِیْعٌ بِدَعْوَاتِنَا وَعَلِیْمٌ بِنِیَّاتِنَا ؎گناہ کرتے ہوئے چار گواہ کا ہونا اور توبہ سے سب گواہیوں کا محو ہوجانا جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اُس کی اس حرکت پر قرآن کی روشنی میں چار گواہ ہوجاتے ہیں: ------------------------------