روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ کی شان تو یہ ہے:یُجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُاور وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا یعنی مضطر کی دُعا کو قبول فرماتے ہیں جب وہ دُعا مانگے، اور جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ضرور ضرور ہم اپنے راستے اُس کے لیے کھول دیتے ہیں۔ پس کسی صورت کے استحسان کا ضرورت سے زائد مستحسن معلوم ہونا کہ عقل اور دین میں نقصان اور اختلال پیدا ہونے لگے تمویہ کہلاتا ہے اور اِس سے نجات حاصل ہونا حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کہلاتا ہے۔ حضرتِ اقدس تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اِس مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ احقر بھی اِس وقت ایک تمویہ میں ابتلا ہے اور ایک تنبیہ کی استدعا ہے اے اﷲ! رحم و کرم فرما اور اے ناظرین!آپ بھی میرے لیے دُعا کریں کہ ہرتمویہ سے نجات حاصل ہو اور نجات کے بعد حفاظت اور موت کے بعد مغفرت کی دُعا کریں۔اَللّٰھُمَّ نَجِّ اَشْرَفْ عَلِیْ وَاحْفَظْ اَشْرَفْ عَلِیْ وَاغْفِرْ لِاَشْرَفْ عَلِیْ۔ نوٹ: اﷲ والوں کا امتحان اور اُن کی تمویہ کو ہرگز اپنے اُوپر قیاس نہ کرنا چاہیے ؎ کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر البتہ عبرت حاصل کرنی چاہیے اور خدائے تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اپنے تقویٰ و تقدس پر کبھی ناز نہ کرے اور حق تعالیٰ سے حفاظت اور پناہ مانگتا رہے۔حضرت مولانا عارف رومیکے ارشادات از: مثنوی رومی ارشادنمبر ۱ کود کے از حُسن شد مولائے خلق بعد پیری شد خُرف رسوائے خلق جو لڑکا کم سنی میں اپنے حُسن کے سبب سردارِ خلق بنا ہوا ہے یعنی ہر شخص اُس کو دیکھ کر کہتا ہے آؤ بادشاہ، آؤ میرے چاند، اے میرے دل و جان کے مالک! وغیرہ وغیرہ جب یہی لڑکا بوڑھا ہوکر آوے گا تو یہی مخلوق اُس کو ذلیل اور کھوسٹ سمجھے گی۔