روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اس آیت کے ذیل میں علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں: استغفار سے مراد ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا ہے اور توبہ سے مراد ندامتِ قلب کے ساتھ تلافی اور آیندہ کے لیے عہد کرنا ہے کہ اس خطا کو دوبارہ نہ کریں گے۔ علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ کی عبارات ملاحظہ ہو: لَا نُسَلِّمُ اَنَّ الْاِسْتِغْفَارَ ہُوَ التَّوْبَۃُ بَلْ ہُوَتَرْکُ الْمَعْصِیَۃِ وَالتَّوْبَۃُ ھِیَ الرُّجُوْعُ اِلَی الطَّاعَۃِ اَ لْاِسْتِغْفَارُ طَلَبُ سَتْرِالذَّنْبِ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْعَفْوِمِنْہُ وَالتَّوْبَۃُ تُطْلُقَ عَلَی النَّدْمِ عَلَیْہِ مَعَ الْعَزْمِ عَلٰی عَدَمِ الْعَوْدِ اِلَیْہِ فَلَا اِتِّحَادَ بَیْنَہُمَا؎ اگر استغفار اور توبہ ایک ہی حقیقت رکھتے تو حق تعالیٰ شانہٗ الگ الگ نہ بیان فرماتے۔ توبہ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مفہوم حق تعالیٰ کی عنایات اور توفیقات ہوتی ہیں۔مقبول توبہ کی علامت خطا کے صدور سے قلب کا انتہائی غم اور انتہائی کرب اور ندامت منصوص ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یہ آیت اس اضطراب پر دلالت کرتی ہے کہ جس قدر ایمان ہوتا ہے اسی قدر گناہ سے غم ہوتا ہے۔ چناں چہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان تین اصحاب پر زمین باوجود وسعت کے تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے بے زار ہوگئے۔ حدیث میں وارد ہے کہ مؤمن کے قلب پر گناہ مثل پہاڑ معلوم ہوتا ہے اور منافق کے قلب پر گناہ مثل مکھی معلوم ہوتا ہے۔ اور نیکی سے خوش ہونا اور گناہ سے غمگین ہونا علامتِ ایمان قرار دیاگیا ہے۔ مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ گناہ کےغم کو یوں بیان کرتے ہیں ؎ ------------------------------