روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جیساکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ اَوَّلِ مُصِیْبَۃٍ جزیں نیست کہ صبر اوّل مصیبت کے وقت ہے (کیوں کہ دن گزرنے سے تو صبر سب ہی کو آجاتا ہے)۔اسی لیے علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہنے دوسری جگہ رضابقضا کی تعریف کی ہے:رِضَاءٌ وَہُوَ سُرُوْرُالْقَلْبِ بِمُرُوْرِ الْقَضَاءِ دل کا مسرور ہونا قضا کے ورودکے وقت لیکن اس رضا کا نام رضا طبعی ہے جو غلبۂ اُنس اور غلبۂشوق میں نصیب ہوتی ہو جس کا بندہ مکلّف نہیں۔ جس رضاکا درجہ فرض ہے وہ رضائے عقلی ہے۔ تعریف رضائے عقلی جو حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے بیان فرمائی ہے وہ قضا پر عدم اعتراض ہے۔ وَہُوَ تَرْکُ الْاِعْتِرَاضِ عَلَی الْقَضَاءِ نیز فرمایا کہ رضائے عقلی میں احساس الم کا ہوتا ہے اور رضائے طبعی میں احساسِ الم باقی نہیں رہتا۔ علّامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ صبرصرف زبان سے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھ لینے کا نام نہیں بلکہ صبر زبان سے بھی ہو اور قلب سے بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرے جو اُن سے کہیں زیادہ ہیں جو حق تعالیٰ نے اس سے واپس لی ہیں۔ اس سے صبر کرنا آسان ہوگا اور تسلیم کی شان پیدا ہوگی اور اِسترجاع یعنی اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنا اس اُمّت کے لیے خاص انعام ہے۔استرجاع کا اس اُمّت کے لیے خاص انعام ہونے کا ثبوت عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُعْطِیَتْ اُمَّتِیْ شَیْئًا لَمْ یُعْطَہٗ اَحَدٌ مِّنَ الْاُمَمِ اَنْ تَقُوْلَ عِنْدَ الْمُصِیْبَۃِ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ وَلَوْ اُعْطِیَہَا قَبْلَہُمْ لَاُعْطِیَہَا یَعْقُوْبُ اِذْ یَقُوْلُ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ ؎ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میری اُمت کو ایک چیز ایسی دی گئی ہے جو کسی اُمت کو نہیں دی گئی سابقہ اُمتوں سے اور وہ یہ کہ مصیبت کے وقت تم اِنَّا لِلہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہو اور اگر کسی کو یہ استرجاع دیا جاتا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا ------------------------------