روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جب اپنی فکر میں پڑے گا دوسروں کی تحقیر، تنقید اور تبصرے سے بچے گا۔ جیسے کوڑھی کسی زکام کے مریض کو حقیر نہیںسمجھتا اِسی طرح اپنی روحانی اور قلبی بیماری کو شدید سمجھےاور اپنے خاتمے کے خوف سے لرزاں اور ترساں رہے ۔ میرے مرشد رحمۃ اﷲ علیہ اِس بیماری کی اصلاح کے لیے ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے۔حکایت ایک لڑکی کی شادی کے موقع پر اُس کو خوب اچھے لباس اور زیور سے سجایا گیا۔ محلّے کی سہیلیوں نے تعریف شروع کی کہ بہن! تم تو بڑی اچھی معلوم ہوتی ہو۔ اُس نے رو کر کہا کہ ابھی تم لوگ بے کار تعریف کرتی ہو۔ جب میرا شوہر مجھے دیکھ کر پسند کرلے اور اپنی خوشی کا اظہار کردے تب وہ خوشی اصلی خوشی ہوگی۔ معلوم نہیں اُس کی نگاہ میں میری صورت کیسی معلوم ہوگی۔ تمہاری نگاہوں کے فیصلے ہمارے لیے بے کار ہیں۔ پھر حضرت مرشد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اِس طرح بندے کو مخلوق کی تعریف سے یا اپنی رائے سے خود کو اچھا اور بڑا نہ سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ میدانِ محشر میں حق تعالیٰ کی نظر سے ہمارے لیے کیا فیصلے ہوں گے، اُس کی خبر ہم کو ابھی کچھ نہیں پھر کس منہ سے موت سے قبل اور حُسنِ خاتمہ سے قبل اپنے کو اچھا سمجھنے کا حق ہوگا! حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ ایماں چوں سلامت بہ لب گور بریم احسنت بریں چستی و چالاکی ما جب اسلام کو ہم قبر میں سلامتی سے لے جائیں گے پھر اپنی چستی اور ہشیاری پر خوشی منائیں گے۔ یہی و جہ ہے کہ تمام اولیائے کرام مرنے سے قبل کبھی ناز کی بات نہیں کرتے اور حُسنِ خاتمہ کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور دوسروں سے بھی درخواست دُعا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بے وقوف لوگوں کا کام ہے جو اپنے مالک کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر اپنے ہی فیصلے سے یا مخلوق کی تعریف سے اپنے لیے بڑائی اور اچھائی کا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ یہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا ملفوظ ہے جس کو احقر نے اِس شعر میں عرض کیا ہے ؎